دائروں کا سفر جاری ہے۔ نہ عمران خان نے کچھ سیکھا نہ پی ڈی ایم نے۔ نتیجہ یہ کہ جس اندھی کھائی میں ن لیگ دو دہائیاں پہلے گرتی تھی، اب بھی پوری یکسوئی اوراستقامت کے ساتھ اسی سمت رواں دواں ہے۔ ایک بے بس شہری کے طور بیٹھا سوچ رہا ہوں جب ہم نے غلطیاں وہی پرانی کرنی ہیں تو انجام نیا یا مختلف کیسے ہو سکتا ہے؟ خبر ہے کہ چیئر مین نادرا طارق ملک نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ جو لوگ سیاق و سباق سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ استعفیٰ دیا نہیں گیا، استعفیٰ لیا گیا ہے۔ یہی چیئر مین نادرا تھے جنہیں ن لیگ کے پچھلے دور میں نواز شریف صاحب نے لاہور طلب کر کے ان کے سامنے کچھ ’مطالبات‘ رکھے تھے ۔ طارق ملک نے انکار کر دیا کہ یہ کام میں نہیں کر سکتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ طارق ملک لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے ابھی موٹر وے پر ہی تھے کہ انہیں اس منصب سے ہٹا دیا گیا ۔ عدالت نے انہیں بحال کر دیا ۔ لیکن وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ روایت ہے کہ ان کی بیٹیوں کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی گئی تھی۔ کچھ سال بعد وہ پاکستان لوٹے تو میں نے انہیں اپنے ٹاک شو میں مدعو کیا ۔ تین سوال پوچھنا تھے اور یہی پوچھے۔ پہلا سوال تھا کیا یہ درست ہے کہ نواز شریف صاحب نے آپ کو لاہور بلا کر کچھ مطالبات کیے تھے اور آپ نے معذرت کی تھی؟ جواب ملا درست ہے ، ایسے ہی ہوا تھا۔ دوسرا سوال تھا کہ کیا اسی وجہ سے آپ کو منصب سے ہٹایا گیا؟ جواب ملا ایسا ہی تھا اور ابھی میں راستے میں تھا کہ مجھے ہٹادیا گیا ۔ تیسرا سوال تھا کیا عدالت سے بحالی کے بعد آپ کے اہل خانہ کو دھمکیاں دی گئی تھیں ؟ جواب ملا جی ہاں دی گئی تھیں۔ طارق ملک دست سوال پھیلانے والے نوکری پیشہ نہیں ہیں۔ باپ کی تربیت ایسی ہے کہ بچوں نے پیٹ کی آنکھ سے چیزوں کو کبھی نہیں دیکھا۔ وہ اس قماش کے آدمی نہیں جو پیٹ کے سہارے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں کہ اپنی جماعت برسر اقتدار آئے گی تو جوتوں میں دال کی صورت مال غنیمت بٹے گا تومیرا بھی دائو لگ جائے گا۔چنانچہ وہ چیئر مین نادرا کے منصب سے الگ ہوئے تو اقوام متحدہ نے یو این ڈی پی کی کمیٹی کا سربراہ بنا دیا۔ طارق ملک ان چند پاکستانیوں میں سے ہیں جنہیں یہاں آ کر کسی سیاسی آقا کے مجاوروں کی لائن میں لگ کر سوالی بننے کی حاجت نہیں۔ اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے کا یہ ان کا پہلا تجربہ نہ تھا کہ کوئی یہ سمجھے کہ نادرا کے چیئر مین رہنے کی وجہ سے اقوام متحدہ نے انہیں یہ منصب دے دیا ہو گا۔ وہ اس سے پہلے بھی اقوام متحدہ کے ساتھ کام کر چکے تھے اور اس دوران صرف 130 ممالک نے ٹیکنالوجی کے ذریعے گورننس کے نظام کو بہتر بنانے کے پروگرامز میں ان سے مدد اور معاونت لی تھی۔ جی ہاں ، صرف 130 ممالک نے۔ نیو یارک کے ادارے ون ورلڈ آئیڈینٹیٹی کی جاری کردہ ڈیجیٹل کمیونٹی کے ماہرین کی فہرست میں تین سال ان کا نام فیس بک کے مارک زکربرگ ، ایپل کے ٹم کوک ، مائیکروسوفٹ کے ڈینئیل بکنر جیسوں کے ساتھ آتا رہا۔ کتنے ہی ایوارڈز ہیں،جو ان کی پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت ہیں۔ یاد رہے کہ بین الاقوامی سطح کے یہ ایوارڈز پاکستان کے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کی طرح ابن الوقتی اور مجاوری کی بنیاد پر نہیں ملتے ، یہ میرٹ پر ملتے ہیں۔ وطن عزیز میں ایک لنگر کھلا ہے اور عشروں سے کھلا ہے۔ ہر شعبہ زندگی میں ایسے پست کردار موجود ہیں، جو ساری عمر طفیلیے بن کر زندگی گزار دیتے ہیں کہ کبھی اقتدار ملے گا تو اس بندر بانٹ میں سے ہمیں بھی حصہ مل جائے گا۔ یہ جو حکومتیں بدلتی ہیں تو نئی تعیناتیاں ہوتی ہیں یہ کیا ہیں؟ یہ سیاسی رشوت ہے اور ملکی وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹنے کی ایک مشق۔ حد تو یہ ہوتی ہے کہ جو جس شعبے میں اپنا کاروبار کر رہا ہو اس طفیلئے کو اسی شعبے سے وابستہ سرکاری ادارے میں اعلی منصب دے دیا جاتا ہے۔ مقصد واضح ہوتا ہے کہ لو بھائی صاحب ، اب تک تم نے پارٹی پر اور قیادت پر جتنے خرچے کیے اب سود سمیت وصول کر لو۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر شعبے میں طفیلئے راج کرتے آئے ہیں۔ اہلیت کی ضرورت نہیں سیاسی مجاوری اور وفاداری سب سے بڑی اہلیت ہے۔ ریاستی منصب مال غنیمت نہیں ہوتا ۔ یہ امانت ہے۔ مسلم لیگ کا یہ کلچر رہا ہے کہ انڈر میٹرک لوگوں کو علم و فضل کے اداروں کی سربراہی دیے رکھی،اور خدام ادب میں عہدے بانٹ دیے۔پہلے دور میں سیاسی رشوت کے طور پر تحصیلدار بھرتی کیے گئے اور سر کاری زمینیں کوڑیوں کے بھائو الاٹ کی گئیں۔ وہ لوگ آج تک اس لنگر سے مستفید ہو رہے ہیں۔ گمان تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بندر بانٹ ختم ہو گی اور بدلتے وقت نے مسلم لیگ کی قیادت کے مزاج اور افتاد طبع کو بھی بدلا ہو گا۔لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں۔اور اب خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ کرکٹ بورڈ کی سربراہی پر دو حلیف جماعتیں آمنے سامنے ہیں کہ یہ عہدہ کس کا مال غنیمت ہے اور کس کے مجاور کے حصے میں آئے گا۔ طارق ملک کے خلاف تحقیقات کی خبریں بھی آ رہی ہیں اور ان کے ملک سے باہر جانے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ طارق ملک کے خلاف یہ تادیبی کارروائی کس بنیاد پر ہو رہی ہے؟کچھ ہے تو اسے سامنے آنا چاہیے ورنہ اسے مبنی پر انصاف اقدام قرار دینا ممکن نہیں ہو گا۔مسلم لیگ ن کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ انصاف اور انتقام کے درمیان ایک باریک سی لکیر ہوتی ہے۔ حزب اقتدار میں لوگ اس لکیر کو پامال کر دیتے ہیں اور حزب اختلاف میں پھر اسی لکیر کو پیٹتے رہتے ہیں کہ ظلم ہو گیا۔ عمران خان کا سارا طنطنہ اور رعونت ماضی کا قصہ بن گیا تو پی ڈی ایم کا اقتدار بھی پانی کا بلبلہ ہے۔ سدا کی بادشاہت صرف سوہنے رب کی ہے۔ چیئر مین نادرا کے استعفے کی آخری سطر بڑی اہم اور نہایت ذو معنی ہے۔ لکھا ہے :’’میری جگہ کسی پروفیشنل کو تعینات کیا جائے۔ نادرا کسی سیاسی تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا‘‘۔ اس ایک فقرے سے وقتی طور پر تو اب کسی کو سیاسی طور پر نوازنا ممکن نہیں رہا۔ دوسری جانب یہ بھی آسان نہیں کہ میرٹ پر تعیناتی ہو۔ شاید سیاسی اندازسے درمیانی راستہ نکالا جائے اور عارضی طور پر کسی پروفیشنل کو یہ ذمہ داری دی جائے اور پھر چپکے سے کسی کو نواز دیا جائے۔ یہ سوال مگر ایک دائمی آسیب بن کر ہمارے قومی وجود سے لپٹا رہے گا کہ قومی اداروں کو شعبے کے ماہرین کی ضرورت ہے یا سیاسی مجاوروں کی۔ یہ منصب امانت ہیں یا مال غنیمت؟یہی حال رہا تو شعبوں کے ماہرین ملک چھوڑتے جائیں گے اور ملک میں صرف بھٹو زندہ بچے گا اور میا ں دے نعرے وجن گے۔ ٭٭٭٭٭