شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃاللہ علیہ کا شمار برصغیر پاک وہند کے ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کے مقتدر اور جید اولیائے کرام میں ہوتا ہے ۔ آپ اُن اولیائے عارفین میں سے تھے جن کی تعریف و توصیف میں علمائے کرام کا ہر طبقہ عقیدت و محبت سے رطب اللساں ہے آپ نے مسلمانوں میں فرقہ بندی کے تصورات کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور اتحاد بین المسلمین کے لئے عمر بھر کوشاں رہے ۔ آپ نے اُمت محمدی کو محبت، باہمی اُلفت اور یگانگت کا درس دیا۔ کروڑوں بندگانِ خدا نے آپ سے محبت الہٰی اور حب نبوی کی نعمت بے بہا اور دولت لازوال پائی۔ عالی نسبت بزرگ تھے اور اللہ نے بے پناہ مقبولیت اور محبوبیت بھی عطا فرمائی تھی آپ کی ذات گرامی بلند منزلت علمائو مشائخ کا مرجع تھی۔ انیسویں صدی کی تحریکوں کے منبع و مرکز تھے ۔ آزادی وطن کی تیسری اہم تحریک میں خود آپ نے اور آپ کے مریدوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ ہندوستان کی تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھنے کے قابل ہیں، حیات امداد میں ہے کہ آپ کا اسم گرامی ابتداء میں’ امداد حسین ‘تھا بعد میں کسی بزرگ نے بدل کر ’امداد اللہ‘ کردیا، سلسلہ نسب خلیفہ ثانی امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے اسی نسبت سے ’فاروقی‘ کہلاتے ہیں۔ آپ کی ولادت 22 صفر المظفر 1233ھ کو سہارنپور میں ہوئی۔ سات سال کی عمر میں والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا اور اسی عمر میں آپ نے قرآن پاک حفظ کرنے کا شوق بھی پورا کر لیا۔ آپ وسیع القلب تھے اور تعصب اور تشدد سے سخت نفرت کرتے تھے ۔ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم کا شوق پیدا ہوا تو دہلی میں مولانا نصیر الدین نقشبندی کے ہاتھ پر 18 سال کی عمر میں بیعت کر کے سلوک کی منزلیں طے کیں۔ طریقہ نقشبندیہ حاصل کیا اور خرقہ حاصل کرنے کی اجازت لی اسی لیے انہیں ان کا مرشد اول کہا جاتا ہے اور حضرت حاجی صاحب ان کی خدمت سے واپس آنا تو نہیں چاہتے تھے مگر والد گرامی کی طویل علالت کی وجہ سے واپس آئے تو عمر بھر اس کا صدمہ رہا کاش ان کی خدمت میں کچھ اور وقت گزارتا اور ان سے فیض حاصل کرتا۔ اِس کے بعد مولانا محمد قلندر بخش سے مشکوٰہ شریف اور حصن حصین کا درس لیا۔ ایک خواب میں اشارہ پا کر حضرت میاں جی نور محمد جھنجانوی سے بیعت ہوئے انہیں مرشد ثانی کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ اُ ن سے بھی خلافت حاصل کی تو معرفت کے دروازے کھل گئے اور اپنے پیر و مرشد کے ارشاد پر سلسلہ کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہو گئے ۔ جب کافی عرصہ تک فیوض و برکات سے استفادہ کر چکے تو ایک دن شیخ گرامی نے سوال کیا تسخیر چاہتے ہو یا کیمیا؟ عرض کیا’’محض محبوبِ حقیقی کی خواہش ہے ‘‘۔ میاں جی اِس جواب سے بے حد خوش ہوئے اور اُن کے لئے خصوصی دعا فرمائی۔ اور تمام سلاسل کی اجازت و خلافت بھی عطا فرمائی اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد 1249ھ آپ کے مرشد ثانی بھی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ انہوں نے امانت اس کے اہل اور حقدار کے سپرد کی اور اپنے خالق کے حضور پیش ہوگئے ۔ دیوبند مکتب فکر کے کئی اکابر حضرت حاجی صاحب سے بیعت تھے اگرچہ اس بات سے انکار نہیں کہ دونوں کے مابین نظریات و عقائد میں بہت بُعد پایا جاتا ہے ۔ آپ اکثر اوقات یہ شعر پڑھا کرتے تھے :’’اے خدا ایں بندہ را رسوا مکن،گربدم ہم سرمن پیدا مکن۔‘‘ آپ علوم ظاہر و باطن کے جامع تھے ۔ 1274ھ میں آپ نے سہارن پور، مظفر نگر اور آس پاس کی آبادیوں کے علمائے کرام اور دوسرے آزادی پسند مسلمانوں کی ایک جماعت تیار کی۔آزادی وطن کے جذبے نے آپ کے قلب و جگر کو گرمایا۔ اُن کے رفقاء نے انگریزی حکومت کے خاتمے کے لئے بہت سے مصائب کا سامنا کیا تھا، انگریزوں نے ضلع مظفر نگر کے ایک قصبہ شاملی میں حریت پسندوں سے مقابلہ کیاجس میں آپ کے ایک جانثار حافظ محمد ضامن نے جام شہادت نوش کیا۔جب انگریز سرکار نے علمائے کرام پر زمین تنگ کی تو علماء و مجاہد ین کچھ روپوش ہو گئے اور کچھ نے راہِ ہجرت اختیار کی، مہاجرین میں حضرت حاجی صاحب بھی تھے آپ نے مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کی 1276ھ میں مکہ معظمہ پہنچے اور محلہ حارت الباب میں سکونت اختیار کر لی۔ اسی نسبت سے ’ مہاجر مکی‘ کہلائے شروع میں آپ کو بہت سی تکالیف اُٹھانا پڑیں جو اکثر اوقات اللہ کے بندوں کے امتحان کے لئے ہوتی ہیں۔ آپ نے تمام تکالیف صبر و تحمل سے برداشت کیں اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد حالات اُن کے حق میں ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دل میں آپ کی محبت پیدافرما دی اور بڑے بڑے علمائے کرام اور مشائخ نے آپ سے استفادہ کرنا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تربیت اور طریقے میں ایسی برکت عطا فرمائی کہ اس کے انوار ہرسو پھیل گئے ۔ طریقہ چشتیہ صابریہ کی تجدید فرمائی اوراور اسے بام عروج تک پہنچایا۔ اس میں بڑے بڑے مقتدر علما اور فضلا ء شامل ہوئے ۔مثنوی مولانا روم سے حد درجہ کا لگاؤتھا۔ حرمین شریفین میں اس کا درس دیتے تھے اورمریدوں کو مثنوی پڑھنے کی تلقین فرماتے تھے ۔ حاجی صاحب نے صرف وعظ و نصیحت تک ہی اپنی خدمات کو محدود نہ رکھا بلکہ تحریرو تصنیف کی طرف بھی توجہ فرمائی، آپ کی تصانیف محبت ِ الہٰی، معرفت اور تصوف سے بھرپور ہیں جن میں سے ضیاء القلوب، ارشادِ مرشد،تحفۃ العشاق، جہاد ِاکبر، غذائے روح اور دردناک غم قابل ذکر ہیں اور یہ تمام’کلیا ت امدادیہ‘ کے نام سے طبع ہوچکی ہیں۔ مکۃ المکرمہ میں آپ سے عرب و عجم کے علماء کرام نے استفادہ کیا تو آپ نے بھی وہاں پر موجود ا س وقت کے جید اولیاء کرام، مشائخ عظام کی صحبت اور بابرکت مجالس سے خیر پائی۔ برصغیر کی عظیم علمی و روحانی شخصیت تاجدار گولڑہ سیدنا پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمۃ کو بھی حضرت حاجی صاحب سے شرف ملاقات ہے اور انہی سے حضرت تاجدار گولڑہ کو سلسلہ صابریہ چشتیہ کی خلافت اور جمیع وظائف کی اجازت بھی ہے ۔ خود حضر ت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمۃ فرماتے کہ میرا اپنا ارادہ بھی مکہ مکرمہ مستقل قیام کا تھا مگر حاجی صاحب کے حکم پر برصغیر کا ارادہ کیا کہ انہوں نے کہا آپ کی وہاں ضرورت ہے ایک فتنہ جنم لے گا اس کی سرکوبی آپ نے کرنی ہے اور یہ ثابت ہوا کہ یہ فتنہ قادیانیت تھا جس کی سرکوبی آپ کے ہاتھوں ہوئی۔اس عرصہ میں ہردوبزرگوں کی اور کئی اہم امور پر ان سے گفت و شنید رہی جس کا تفصیلی ذکر مہر منیر میں صفحہ نمبر 128 سے 130 تک موجود ہے ۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ نے 84 سال کی عمر میں 12 جمادی الثانی 1317ھ بمطابق 1899 میں وفات پائی اور مکہ معظمہ میں جنت المعلیٰ کے عظیم قبرستان میں مدرسہ صولتیہ کے بانی مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے پہلو میں مدفون ہوئے ۔(ماخذ: حیاتِ امداد، مہر منیر)