آئی ایم ایف کی چیف کرسٹا لینا جیور جیوا نے کہا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ اپنا موجودہ پروگرام کامیابی سے مکمل کیا ہے تاہم فالو اپ پروگرام کے لیے کچھ مسائل کو حل کرنا ہو گا۔اس سے مفر نہیں کہ معیشت کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے آئی ایم ایف سے طویل مدتی انتظامات پر بات چیت کرنا نئی حکومت کی مجبوری ہے مگروزرات خزانہ کے مطابق نیا قرض پروگرام موجودہ اسٹینڈ بائی ارجنٹ معاہدے سے بھی زیادہ مشکل شرائط پر مبنی ہو گا۔آئندہ مالی سال کے بجٹ کیلئے آئی ایم ایف وزارت خزانہ کو تجاویز دے گا، جس پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ جن میں بجلی، گیس مزید مہنگی کرنے کے ساتھ مختلف شعبوں کو دی جانے والی سبسڈی کا بتدریج خاتمہ کرنا شامل ہو گا ۔ اس کے علاوہ ٹیکسوں کی مد میں مختلف شعبوں کو دیا جانے والا استثنیٰ بھی ختم کیا جائے گا۔مگر یہ بھی حقیقت کے کہ حالیہ پروگرام کی شرائط پوری کرنے کے لئے جس طرح بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھائی گئیں،اس نے عام آدمی کی زندگی اجیر ن کر دی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبہ پر جو شرح سود مقرر کی گئی ہے اس سے پیداواری شعبہ شدید متاثر ہوا ہے اسی طرح برآمدی شعبہ کو فراہم کی جانے والی سبسڈی کے خاتمہ سے برآمدات کم ہوں گی ۔بہتر ہوگا حکومت نئے پروگرام سے پہلے شرح سود میں کمی کرے اور برآمدی شعبہ کی استعداد کار بڑھانے کے لئے موثر اقدامات کرے تاکہ خود انحصاری کی پالیسی کے باعث آئندہ قرض لینے کی ضرور ہی پیش نہ آئے۔