ہمارے پاس حیرانی نہیں تھی ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی ہمیں ہونا تھا رسوا‘ ہم ہوئے ہیں کسی کی ہم نے بھی مانی تھی حق و باطل کی آویزش تو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے کہ منفی اور مثبت قوتوں کی پہچان میں ختم ہو گئی۔ بنیادی طورپر اکثریت کی دو ہی قوتیں ہیں اور دونوں ہی سچ کی دعویدار ہیں مگر ان کی ہسٹری شیٹ کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ اسی لیے یہ کہتے ہوئے بھی خوف لاحق ہے کہ کہیں چھوٹ کے مدمقابل چھوٹ ہی تو نہیں۔ اصل میں ہم یا تو جانتے نہیں اور اگر جانتے ہیں تو مانتے نہیں۔ ہمیں اپنے مفادات کھینچتے ہیں۔ ہم آنکھیں بند کئے اپنے اپنے نام نہاد رہنما کی چال چل رہے ہیں جو کچھ نظربھی آتا ہے تو ہم اس سے اغماض کرتے ہیں کہ اسے دیکھنے کی سکت نہیں۔ دوسری جگہ یہ کہہ لیں کہ شاید آنکھوں پر دل کے پردے ہیں۔ پھر مولانا روم یاد آتے ہیں: چون غرض آمد ہنر پوشیدہ شد صد حجاب از دل بسوئے دیدہ شد ایسے ہی خیال یا کہ سورۃ لقمان میں حکیم لقمان کی نصیحتیں۔ یہ ذہن میں رہے کہ حکیم ہمارے والے حکیم نہیں بلکہ یہ حکمت سے ہے۔ وہی حکمت جس کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جسے یہ حکمت دی گئی تو سمجھو اسے خیر کثیر دی گئی۔ اس سے بڑھ کر کیا نعمت ہو گئی۔ کسی نے حضرت لقمان سے پوچھا کہ بکری کے گوشت میں سب سے اعلیٰ گوشت کونسا ہوتا ہے۔ حضرت لقمان نے اس کے دل والے حصے پر انگلی رکھی کہ یہی سب سے اچھا گوشت ہے اور یہی سب سے برا۔ مطلب یہ تھا کہ اسی کے سنورنے اور بگڑنے پر ہے۔ یہ جو کہا گیا اس کے پیچھے آقا ؐ کی حدیث بھی ہے جس کا مفہوم ہے کہ یہ دل ہی ہے کہ جس کی حفاظت ازبس ضروری ہے پورے جسم کا دارو مدار اس پر ہے۔ ہم شاعر بھی تو اسی دل کا تذکرہ کرتے ہیں۔ میر درد نے کیا خوب کہا تھا کہ: دونوں جہاں کہاں تری وسعت کو پا سکے اک دل ہی وہ جگہ ہے جہاں تو سما سکے آپ مندرجہ بالا عرض کو تمہید ہی سجھئے کہ ایک آرزو اس دل میں ہے کہ ہم ذرا سا سوچیں تو ضرور کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ سیاست کے میدان میں کیا چل رہا ہے کہ سب کچھ رکا ہوا ہے۔ سب اپنی اپنی انا کے اسیر ہیں۔ کوئی تو ذمہ دار ہے کہ ملک کو جیسے کسی آسیب نے گھیر لیا ہے۔ یہ مورچہ بندی تو پہلے کبھی نہ تھی۔ عدلیہ پر بھی انگلیاں اٹھنے لگیں۔ انصاف کی بات کریں تو آپ کے خلاف آوازیں اٹھتی ہیں۔ اساسی بات تو مکالمے کی تھی کہ اس کے بغیر آپ کیسے کسی منطقی انجام تک پہنچ سکتے ہیں۔ مجھے تو زرداری صاحب کی بات قرین انصاف نظر آتی ہے کہ وزیراعظم اپوزیشن سے غیر مشروط مذاکرات کریں اور یہی بات انہوں نے عمران خان کو بھی مشورہ دے طور پر کہی کہ وہ مذاکرات کی درخواست کریں۔ دیکھا جائے تو اب بھی یہ راستہ بچتا ہے کہ اسی طرح انتخاب کی طرف جایا جا سکتا ہے۔ آئینی کنونشن میں جس بات کا اعادہ کیا جارہا ہے وہی تو سب کہتے ہیں کہ تمام ادارے آئین پر مکمل عمل کریں۔ یہ بھی درست کہا گیا کہ ہر دس اپریل کو یوم دستور منایا جائے اور آئین کو نصاب تعلیم میں رکھا جائے اور میرا خیال سب سے پہلے اسمبلی کے لوگوں کو تعلیم دی جائے میرا مطلب ہے آئین کی۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخاب کے بغیر کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا جا سکتا۔ پارلیمنٹ نے عدالتی اصلاحات کے ساتھ بل پیش کیا کہ پورے ملک میں ایک سات الیکشن ہوں۔ قرارداد بھی منظور کرلی گئی۔ اپنے اپنے موقف سے مصلحت کی طرف آنا ہی پڑے گا۔ جو خبر سب سے زیاہ ٹھیک رہی ہے وہ اندیشہ ہے کہ وہی ماضی والی بات نہ ہو جب پنجاب کی غیرت پر الیکشن لڑا گیا تھا جس سے ایک عجیب تاثر ابھرا۔ سب صوبے برابر ہیں اور پاکستان کی اکائیاں ہیں۔ تحت لاہور کی بات سے تعصب جنم لے سکتا ہے۔ میں یہ بات ہوا میں نہیں کر رہا بلکہ کئی سمجھدار لوگوں کو بھی یہ کہتے سنا کہ اب پنجاب کو اٹھ جانا چاہیے۔ کم از کم خان صاحب کو سوچنا چاہیے کہ اسمبلی تو آپ نے چھوڑی اور مخالفین کو آپ نے فری ہینڈ دے دیا بلکہ اپوزیشن بھی ان کے ہینڈ اوور کردی۔ یہ تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ راجہ ریاض اپوزیشن بنے گا۔ یہ بالکل سامنے کی بات تھی۔ اگر آپ ٹھہرتے تو حکومت بالکل بھی نہ ٹھہر پاتی۔ عمر گزری ہے دربدر اپنی ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے پرویزالٰہی تو آپ کو مشورے ہی دیتے رہ گئے کہ پنجاب گورنمنٹ کو ہاتھ میں رکھو مگر آپ نے ایک نہ مانی۔ پرویزالٰہی سیاست کی روش سے واقف ہیں ۔ مگر آپ کے دائیں بائیں بیٹھے پیاروں نے پرویزالٰہی کی ایک بھی نہ چلنے دی۔ یہ بات میں مذاقاً نہیں کہہ رہا بلکہ حقیقت ہے کہ جب آپ غلطی کریں گے اور اپنے ہاتھ کاٹ لیں گے ۔ حالات تو سب کے سامنے ہیں کہ مرکز نے فنڈز ابھی تک نہیں دیئے۔ اجلاس بھی اگلی جمعرات تک چلا گیا ہے اور مجھے لگتا ہے یہ کہیں کالی جمعرات ہی نہ ہو۔ ایک دکھ تو یہ بھی ہے کہ بحیثیت مسلمان اکثریت سوچ رہی ہے کہ ہم نے رمضان جیسا قیمتی مہینہ کس چکر میں گزار دیا۔ ایسے منیر نیازی یاد آ گئے۔ ایک دن کسی شخص کے بارے میں بتاتے ہوئے کہنے لگے‘ تو نے دیکھا نہیں کہ اس کا بول بول کر منہ پڑا اور سر چھوٹا ہوگیا ہے۔ کوئی ادب کی بات ہو جو کہ کبھی پی ٹی وی پر ہوا کرتی تھی اب تو وہاں بھی ویرانی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سب کچھ پی ٹی وی اور ریڈیو ہوا کرتا ہے یہ تربیت گاہیں تھیں۔ اب تو ہر کوئی اپنا چینل بنا کر وی لاگ پر بیٹھا ہے کہ شاید دنیا ساری اس کے اردگرد گھوم رہی ہے۔ آخر میں اسرار چشتی کی نعت کے دو شعر: یوں تو معلوم نہیں کیا ہے حقیقت اپنی مستند ہے درخشاں سے نسبت اپنی کوئی پوچھے تو حوالہ ترا دے دیتے ہیں یوں ترےؐ نام سے ہو جاتی ہے عزت اپنی