فلسطینی باشندوں نے عید الفطر اسرائیلی حملوں میں گزاری ۔عالمی طاقتوں کی بے حسی اور اسرائیلی سفاکیت نے چھ ماہ سے جاری جنگ روکنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہونے دیں۔اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نئے ارکان کی شمولیت سے متعلق کمیٹی اس بات پر اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکام رہی ہے کہ آیا فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کیا جائے۔کمیٹی کے دو تہائی ارکان اس کے حق میں تھے تاہم گروپ جنرل اسمبلی کو سفارش کرنے کے لیے درکار اتفاق رائے تک نہ پہنچ سکا۔اقوام متحدہ میں مالٹا کی سفیر وینیسا فرازیئر نے کہا کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی کے دوسرے اجلاس میں کوئی اتفاق رائے نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہمتعددممالک نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ فلسطین ان تمام معیارات کو پورا کرتا ہے جو مونٹیویڈیو کنونشن اور چارٹر کے آرٹیکل چار کے تحت ضروری ہیں۔یاد رہے کہ مالٹا کے پاس اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت ہے۔ فلسطین کو اگر اقوام متحدہ میں بطور خود مختار و آزاد ریاست کی حیثیت مل جاتی ہے تو اس کو دوسری ریاست کی جارحیت کے خلاف کئی قانونی حقوق حاصل ہو سکتے ہیں،جن سے تاحال فلسطینی باشندے محروم ہیں۔75 سالوں سے فلسطینی ،1948 کے پہلے نکبہ کے وقت سے اپنی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب یہ سانحہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔حالیہ اسرائیل حماس جنگ نے اسرائیل میں سیکولر لبرلز کی گہری کمزوری اور اسرائیلی فوج کی ممکنہ طاقت کے پیچھے ان کی تقریباً مکمل تیاری کو بے نقاب کر دیا ہے،اسرائیلی حکومت اپنی فوج کی قاتلانہ زیادتیوں کے طویل المدتی نتائج پر غور کرنے میں ناکام رہی ہے۔یہ نتائج اسرائیل کی عالمی تنہائی اور اس کے اتحادی ممالک پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ضمن میں داغ ہیں۔ اسرائیل اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔اس کے سنجیدہ فکر افراد کے لئے یہ ایک ایک پریشان کن معاملہ ہے۔ فلسطینیوں کو تباہ کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کا غیر چیلنج شدہ چلن خطے میں امن کے امکانات کو معدوم کر رہا ہے۔ پچھلے چھ ماہ میںغزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں اب تک 33 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی حکومتکی طرف سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ حماس والے "انسانی جانور" ہیں۔اسے اس بات کا پختہ یقین ہے کہ اسرائیل کے خلاف کیے جانے والے جرائم کی تصاویر پیش کرنے سے دنیا معافی مانگے گی۔یہ غیر حقیقی سوچ اسرائیل کو خود اپنے جرائم نظر انداز کرنے کا جواز دے رہی ہے۔غزہ میں اسرائیلی جرائم بے مثال اور اس سے کہیں زیادہ ہیں جو دنیا نے ماضی میں کبھی دیکھے ہیں ہیں۔ دنیا پوچھ رہی ہے کہ اسرائیل میں وہ دانشمند اور ہمدردی کی آوازیں کہاں ہیں جو 1982 میں لبنان میں صابرہ اور شتیلا کے قتل عام کے بعد سڑکوں پر نکلے تھے۔امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی غیر مشروط مدد کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 1994 میں روانڈا کی نسل کشی کے بعد سے ممکنہ طور پر غزہ سب سے زیادہ ہلاکتوں والا سانحہ بن چکا ہے۔ اس کے باوجود امریکہکی طرف سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمیٔ بلا روک ٹوک جاری ہے۔مقامی ذرائع عالمی بے حسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ غزہ کی جنگ بالآخر ختم ہو جائے گی۔آخر کار ایسا ہو گا تو کتنی مزید اموات ہو چکی ہوں گی ۔مبصرین کے مطابق وہ تلخی ضرور ہے جو اسرائیلی یرغمالیوں اور ان کے اہل خانہ کی طرف سے محسوس کی جائے گی، چاہے وہ زندہ نکلیں یا نہ نکلیں۔ اسی طرح اسرائیل کو اس تباہی کا حساب دینا پڑے گا۔ اس طرح کی ہولناکیوں کے بعد سوال ابھرتا ہے کہ فلسطینی اور اسرائیلی بطور ہمسائیہ اس کٹی ہوئی سرزمین میں ایک ساتھ کیسے رہیں گے جسے دونوں اپنا گھر کہتے ہیں؟ سوال تو امریکہ کی بطور سپر پاور مشرق وسطیٰ میں پالیسی پر بھی اٹھ رہے ہیں۔اسرائیل کی اندھی حمایت پر خود امریکی اپنی حکومت سے نالاں ہو رہے ہیں۔YouGov کی طرف سے کرائے گئے ایک نئے سروے میں کہا گیا ہے کہ 36 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، جبکہ 34 فیصد ایسا نہیں سوچتیاور 30 فیصد اس بات پر یقین نہیں رکھتے۔63 فیصد افراد نے جنگ بندی کی حمایت کا اظہار کیا۔ 58 فیصد نے جو بائیڈن اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ سے نمٹنے کے طریقے پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا، جبکہ صرف 23 فیصد نے اس کی تائید کی۔اس سوال کے بارے میں کہ آیا امریکہ کو اسرائیل کے لیے اپنی فوجی امداد میں اضافہ کرنا چاہیے یا کم کرنا چاہیے، 18 فیصد نے کہا کہ اس میں اضافہ کیا جانا چاہیے، جب کہ37 فیصد امریکیوں نے کہا کہ اسرائیل کے لئے فوجی امدادکو کم کیا جانا چاہیے۔YouGov کا کہنا ہے کہ یہ سروے 6 سے 9 اپریل تک کیا گیا تھا اور اس میں تقریباً 1,800 بالغ امریکی شہری شامل تھے۔یہ سروے امریکہ میں اسرائیل کے متعلق سوچ میں تبدیلی کی علامت ہے۔ غزہ میں جنگ بندی اور فلسطین کو ایک الگ ،آزاد و خود مختار ریاست کے تسلیم کئے جانے سے مسئلہ فلسطین کے حل کا راستہ نکل سکتا ہے۔اس سے مکالمہ پر یقین رکھنے والی قوتوں کی ساکھ بحال ہو گی۔اسرائیل نے بھلے پیتیس ہزار فلسطینی شہید کر دیئے ہیں لیکن اس سے اسرائیل نے اپنے مستقبل کو کن خطرات کے حوالے کر دیا ہے اس کا تجزیہ شائد نیتن یاہو حکومت کی ترجیح نہیں۔