وَزیراعظم شہباز شریف نے نومبر کے پہلے ہفتے میں چین کا دو روزہ دورہ کیا ہے جس کے متعلق مختلف آراء پائی جاتی ہیں کہ کیا یہ دورہ کامیاب ہوا ہے یا وزیرِ اعظم خالی ہاتھ لوٹے ہیں۔ اِس قسم کی قیاس آرائیوں کا مقصد اسلام آباد اور بیجنگ کے مابین دوطرفہ تعلقات کے بارے میں جمود جیسی کیفیت کو پیش کرکے غلط فہمی پیدا کرنا ہوسکتا ہے۔ بیجنگ کے اپنے اِس پہلے دورے پر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے چینی صدر شی جن پنگ سے بات چیت کی ہے جس کے دوران دونوں رہنماؤں نے ہمہ وقت دوستی اور 60 بلین امریکی ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ اِس سال اپریل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ شہباز شریف کا چین کا پہلا دورہ ہے۔ تاہم وزیراعظم بننے کے بعد شہبازشریف کی چینی صدر شی جن پنگ سے یہ دوسری ملاقات ہے کیونکہ وزیرِاعظم نے گزشتہ ماہ ازبکستان کے شہر سمرقند میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہی اجلاس کے موقع پر بھی چینی صدر شی سے ملاقات کی تھی۔ گزشتہ ماہ، پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی چین کے دورے پر چین کے وزیر دفاع جنرل وی فینگے سے بات چیت کی تھی جبکہ یہ افواہیں ہیں کہ چین کو بھی پاکستان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ گرم جوشی اور افغانستان میں حملے کرنے کے لیے امریکی ڈرونز کے پاکستان کی فضائی حدود کے استعمال کی اطلاعات پر تشویش ہے۔ چین CPEC کے منصوبوں میں تاخیر پر بھی ناخوش ہے، جو کہ شی جن پنگ کے ملٹی بلین ڈالر کے منصوبے BRI کی فلیگ شپ اسکیم ہے، اِس تاخیر کے نتیجے میں منصوبوں کی لاگت میں اضافہ جبکہ چینی سرمایہ کاروں میں عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔اِس دورے سے مطلوبہ مقاصد کس حد تک حاصل ہوئے ہیں؟ کیا چینی خدشات دور ہوئے یا نہیں؟ اس پر درج ذیل سطور میں بحث کی جائے گی۔ تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور چین کے دوطرفہ باہمی تعلقات گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ہونے والی وقت کی آزمائشوں سے کامیابی سے گزر کر اس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں دونوں ممالک خطے میں امن و استحکام سمیت اپنے مشترکہ مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے دور نہیں ہوسکتے۔ میڈیا کی اِطلاعات کے مطابق وزیرِاَعظم شہباز شریف کو چین کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ پاکستان کے پائیدار اقتصادی اور تزویراتی منصوبوں میں مدد کے لیے "ہر موسم کے تعاون پر مبنی شراکت داری میں نئی تحریک پیدا کی جائیگی"، سیلاب سے نجات کے لیے 500 ملین اضافی RMB کا وعدہ، اور پاکستان میں کلیئرنگ کے لیے یوآن پر تعاون کی ایک یادداشت پر د ستخط کیے گئے ہیں جو چینی اور پاکستانی کاروباری اداروں اور مالیاتی اداروں کے درمیان سرحد پار لین دین کے لیے متبادل ادائیگی کا اختیار فراہم کرسکتی ہے اور ممکنہ طور پر روس سے رعایتی تیل خریدنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔ پاکستان کے چین کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں جو سات دہائیوں میں پروان چڑھے ہیں۔ CPEC جیسے منصوبے کے آغاز نے چین اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات میں ایک ٹھوس اقتصادی جہت کا اضافہ کیا ہے، جس سے دیرینہ دوطرفہ تعلقات مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ تاہم اِن تعلقات کو تروتازہ رکھنے کے لیے مسلسل رابطوں اور مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کے اَن دیکھے نقصان سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔ بہت سے بیرونی عناصر پاکستان اور چین کے درمیان دراڑ اور غلط فہمی پیدا کرنے اور خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو ناکام بنانے کے لیے spoilers کے طور پر کام کر رہے ہیں جن سے کامیابی سے نِمٹنا پاکستان کے لیے اِنتہائی اَہم ہے۔ سی پیک کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری کے لیے بیوروکریسی کے پیچیدہ طریقہ کار کو مزید آسان بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بھی فول پروف انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس وقت چین کی قیادت کو دو اہم نکات پر تحفظات ہیں ان میں سے ایک پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت اور دوسرا بجلی پیدا کرنے والی چینی کمپنیوں کے بلوں کی ادائیگی میں تاخیر – اِن دو اِیشوز کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون پر ہونے والی مزید پیشرفت رکی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں گزشتہ چھ ماہ سے زائد عرصے سے جاری سیاسی بحران اور معاشی عدم استحکام نے چین کی پاکستان میں مزید سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اَمریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کا قیام پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو رہا ہے اور اب بھی پاکستان اَمریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے لیکن اَمریکہ کی چین کے ساتھ جاری تصادم کی پالیسی سے اِسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین تعلقات لامحالہ متاثر ہوں گے۔ اگرچہ پاکستان اِن دو بڑی طاقتوں کی عدوات میں پھنسنے سے بچنا چاہتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک اَمریکہ اور چین کے تعلقات غیر مستحکم رہیں گے اِس کا براہِ راست اثر پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات پر بھی پڑے گا خاص طور پر جب اَمریکہ کی اولین ترجیح چین کی بڑھتی ہوئی اِقتصادی اور سیاسی طاقت اور اثر ورسوخ کی روک تھام ہے۔ اَگرچہ چینی حکومت شہباز شریف کے طرزِ حکومت کو پسند کرتی ہے اور"شہباز سپیڈ" کی معترف ہے تاہم یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پاکستان میں اَگلے سال نئے انتخابات منعقد ہوں گے اور پاکستان میں نیا سیاسی منظر نامہ کیا شکل اِختیار کرتا ہے؟ اِس تناظر میں چینی قیادت شاید آنے والے دنوں کا اِنتظار کرے۔ موجودہ صورت حال میں دانشمندی کا تقاضا ہے کہ حکومت پاکستان چین کے تحفظات کو دور کرے اور دونوں ملکوں کے درمیان اِدارہ جاتی سطح پر متواتر مشاورت کے عمل کو باقاعدہ بناتے ہوئے تیز کیا جائے۔