ریشمی ڈور کی مانند ہاتھوں سے پھسلتا وقت تیزی سے بھاگ رہا ہے۔ اصل مدعا یہ ہے کہ ایک بار پھر سفر کرتے ہوئے دل خوش ہونے کی بجائے مزید فکرمند ہوا کیونکہ اسلام آباد سے لاہور تک کے سفر نے پھر ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔اسلام آباد موٹروے پہ چڑھتے ہی جو ہریالی،سبزہ اور درختوں کی بہار نظر آتی تھی اب وہ ناپید ہوتی جارہی ہے۔ دنیا بھرمیں باشعور اقوام گلوبل وارمنگ کی تباہ کاریوں سے آگاہ ہیں اور درختوں،جنگلات اور سبزہ اگانے پہ زور دے رہے ہیں۔ ماحول کو ٹھنڈا اور متوازن رکھنے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ہم ایک ایسی بد بخت قوم ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنی ٹھنڈی چھاؤں کو، درختوں پودوں کو، ہرے بھرے جنگلات کو کاٹ کاٹ کر زمین بنجر کر رہے ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز اور نت نئے شہروں کی بنیاد رکھنے والے مافیاز یقیناً دولت کی حرص میں اندھے ہوچکے ہیں اور انہیں رتی بھر اندازہ نہیں کہ وہ اپنی دھرتی پہ کتنا بڑا ظلم کر رہے ہیں اور آنے والے چند سالوں میں ساری قوم کو اسکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ زیرو پوائنٹ سے چکری تک پچاس ساٹھ کلومیٹر تک کا راستہ تقریباً 80 فیصد ہریالی اور سبزے سے محروم ہو چکا ہے۔ جابجا بننے والی نت نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز نے ماحول کی خوبصورتی کو گہنا دیا ہے۔ جہاں پہلے ہرجانب سر سبز باغات اور ہرے بھرے میدان نظر آتے تھے اب وہاں چٹیل میدان ہیں اور ان پہ ظلم ڈھاتی بھاری بھرکم مشینیں۔ نجانے کون کون سے نئے آباد ہوتے شہروں نے زمین سے انکا حسن چھین لیا ہے۔ محض چند سال کی بات ہے اور پھر ہمیں دوران سفر اپنے دائیں بائیں ہر سو گھر ہی گھر، سڑکیں ہی سڑکیں، دکانیں اور بازار اور آبادی کا رش دکھائی دے گا۔ کھمبیوں کی مانند بڑھتی کالونیوں اور ہاؤسنگ اسکیموں نے جہاں زرعی زمین پہ ڈاکہ ڈالا ہے وہیں اپنی دھرتی سے پانی کے وسائل بھی ہتھیا لیے ہیں۔ ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ راستے میں آنے والے تمام چھوٹے بڑے ندی،نالوں اور دریاؤں پہ بھی ہاؤسنگ سوسائٹیز والوں نے بلڈوزر چلا دیے ہیں یا دوکانداری چمکانے کے نت نئے طریقے دریافت کر لیے ہیں۔ چکری اور اس کے گرد و نواح میں موجود ہریالی سے بھرے وسیع اور کشادہ میدان انسانی لالچ و حرص کا شکار ہوچکے ہیں۔ تمام زمینیں بک چکی ہیں اور آدھی قیمت میں خرید کر اسے دگنی تگنی قیمتوں میں بیچنے والے مافیاز کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حکومتی عمل دخل کہیں نظر نہیں آرہا کہ ملک کے وسائل کو اتنی بیدردی سے کیوں برباد کیا جارہا ہے؟ کیا پیسہ کمانے کا محض یہی طریقہ رہ گیا؟ کیا اپنے کاروبار کو فروغ دینے اورچمکانے کا اور کوئی طریقہ نہیں۔ انتہائی تیزی سے بڑھتی ہاؤسنگ سوسائٹیز آنے والے وقت میں شدید زرعی بحران کو جنم دینے کا باعث بنیں گی۔ پانی کے ساتھ ساتھ غذائی اجناس کی قلت کو ہم کیسے جھیلیں گے؟ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایسا پاکستان دینا چاہتے ہیں جہاں گھر تو بہت ہوں گے لیکن پینے کا صاف پانی نہیں۔ جہاں کالونیاں اور بازار تو بہت ہونگے لیکن کھانے کو غذا میسر نہیں ہوگی۔ اپنی ہی دھرتی کو ، کھیت کھلیانوں اور جنگلات کو، دریاؤں اور پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر بیچ کھانے والوں کو آخر احساس کیوں نہیں ہوتا کہ وہ کتنے بڑے ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ کھانا آخر کیسا کھانا ہے کہ زمین سمیت سب کچھ کھا جائے اور رہنے کو بچے تو صرف گھر اور مکان ؟؟ اور ان میں بھوک پیاس سے بلکتے انسان؟؟ بڑے شہروں کے علاوہ یہی صورتحال چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی ہے کہ جابجا رہائشی کالونیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور کوئی پوچھنے روکنے والا نہیں۔ جنوبی پنجاب کی جانب رخ کریں تو یہاں شہروں اور دیہاتوں میں چھوٹی چھوٹی ہاؤسنگ سوسائٹیز تیزی سے اپنا کاروبار چمکا رہی ہیں۔ زرعی زمینوں کو بیدردی سے ختم کیا جا رہا ہے اور کسی کو آنے والے حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں۔ میری اعلی حکام اور مقتدر طبقہ سے گزارش ہے کہ خدارا کوئی تو اس کا سدّباب کریں۔ کوئی تو ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس ضمن میں تمام ہاؤسنگ سوسائٹیز میں گھروں اور مکانات کی بجائے تین سے چار منزلہ عمارتوں کے ماڈل کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی جائے تاکہ کم سے کم جگہ میں زیادہ سے زیادہ اپارٹمنٹ بن سکیں اور زرعی زمین کو بچایا جا سکے۔ نیز بے نتھنے بیل کی مانند زمینوں کو روندتی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو لگام ڈالنے کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ زرعی رقبے کو "محفوظ زون" protected zone قرار دیا جائے۔ ان پہ کسی بھی قسم کی تعمیرات کو سنگین جرم قرار دے کر سخت سے سخت سزا اور جرمانہ عائد کیا جائے۔ نیز عمارتوں کی تعمیرات اس انداز سے کی جائیں کہ انہیں کسی بھی ناگہانی آفات جیسے زلزلہ ، سیلاب وغیرہ سے حتی الامکان محفوظ رکھا جا سکے۔ پہلے زمین انسانوں کو نگلتی تھی اب انسان زمینوں کو بیچ بیچ کے کھا رہیہیں۔ جو در حقیقت اس بات سے بے بہرہ ہیں کہ وہ آنے والی نسلوں سے ان کا رزق چھین رہے ہیں اور اگر ابھی بھی ان پہ کوئی قابو نا پایا گیا تو سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔