تاریخ اور انسانی نفسیات پر کبھی غورکریں توحیرت کے کئی جہاں آشکار ہو جائیں۔کئی بار خیال آتا ہے ،آخر زمیں پر انسان کا وہ پہلا دن اور پہلا قدم کیسا ہوگا، جنت سے اتر کر دو ہم جنسوں نے پہلی بار جو قدم یہاں دھرا اور پہلا دن جویہاں گزارا تھا۔ا س پہلے دن کے مقابلے میںیہ دنیا آج آسائشات اور معلومات سے کتنی زیادہ بھر چکی ۔ اس کے باوجود لیکن آج بھی گھروں سے نکل کر مسافر ہوجانے والوں کویہاں کتنی آسانیوں اور راحتوں سے ہاتھ دھونا پڑ جاتے ہیں ، کتنی دل بستگیوں سے سمجھوتہ کرلینا پڑتاہے، کجا یہ کہ جنت کی آسائشات چھوڑ کے نیچے اتر آئے ان ڈرے، جھجکتے اور نئی دنیا کو حیرت بھری آنکھوں سے دیکھتے دو انسانوں کے دلوں کے احوال کا اندازہ لگایا جاسکے۔سوچ کبھی کبھار یوں بھی بہتی چلی جاتی ہے کہ یہ دنیا تب کیسی دنیا ہوگی ،کہ جب ابھی اس کاکوئی نقشہ انسان کو معلوم نہ تھا۔اس کے سمندر معلوم نہ تھے اور اس کے پہاڑ معلوم نہ تھے ۔ اس کا جغرافیہ معلوم نہ تھا اور اس کا حدود اربعہ معلوم نہ تھا۔ اس کے مشرق و مغرب معلوم نہ تھے اور اس کے شمال جنوب دیکھے نہ جا سکے تھے ۔ اس کے راستے معلوم نہ تھے اور اس کی دلدلیں معلوم نہ تھیں۔ وہ دن کیسا دن ہوگا کہ جب سرکش دریا قابو سے باہر ہوں گے اور فضا سے انسان کو خوف آتا ہو گا۔کیا اس وقت انسان ڈوب جانے اور بھیگ جانے کے متعلق جانتابھی ہوگا؟ کیا تب تاروں بھری کسی رات میں آسمان کو دیکھ کے یہ خوف انسان کے دل میں جاگتا تو نہ ہو گا کہ کہیں آسمان سر پر ہی نہ آ گرے ؟ وہ وقت کیسا وقت ہوگا کہ یہاں جب نہ کوئی باپ تھا اورنہ ماں تھی ۔ نہ بھائی تھے اور نہ بہن تھی، جب سوائے میاں بیوی کے کوئی رشتہ نہ تھا۔کیسی دل چسپ بات ہاتھ لگی کہ دنیا کا اور انسانوں کا پہلا رشتہ میاں بیوی کا رشتہ ہے ۔ باقی سارے رشتے اسی ایک رشتے کے راستے سے آئے ہیں۔ اچھا وہ پہلا دن انسان کو کیسا لگا ہوگاکہ جب اس دنیا میں سرحدیں نہ بنی تھیں، جب کوئی واشنگٹن ڈی سی تھا اور نہ نیویارک ، نہ لندن نہ لاہور، نہ دہلی اور نہ ماسکو۔ جب چین تھا اور نہ عرب ۔ جاپان تھانہ کوریا۔ ہڑپہ تھا نہ موئن جودڑو۔ مصری تہذیب تھی اور نہ امریکی فاسٹ فوڈ۔ جرمن تھانہ پیرس ۔انسان تو جنت سے درخت کے پتے پہن کے زمین پر آیا تھا، اس نے اپنا پہلا لباس کب بنا اور اسے موسموں کے ستم سہنے جتنا مضبوط او رموٹا کب بنایا؟ کیا سبزے اور ہریالی سے زمین کی گود پہلے ہی سے بھری تھی یا جنت سے آنے سے پہلے انسان نے کچھ بیجوں کی مٹھیاں بھر لی تھیں ، جنھیں زمیں پر لا بکھیرا تھا اور ان کے اگنے تک یہ سورج کے سائے ہی میں بیٹھتا رہا تھا۔ آخر وہ دنیا کیسی دنیا تھی کہ جہاں ضرورت کی کوئی چیز ابھی دستیاب نہ تھی اور خود انسان کواپنی ضرورتیں بھی بھلا کہاں معلوم ہوں گی۔آخر انسان کے پاس علم اور تجربہ کے نام پر تھا ہی کیا۔آئندہ کام آنے والے چند سکھائے گئے نام اور جنت کی حسین فراغتوں سے اٹھائے گئے لطف کی اک یاد۔ جینے اور آگے بڑھنے کی چاہ میں بھی زندگی کیسی کمال، قوت اور زرخیزی سے بھری ہے۔ کیسے کیسے حالات میں زندگی اپنی راہیں تراش ہی لیتی ہے اور پھر خداخود بھی تو انسان کا رہنما تھا۔سو زندگی آگے بڑھتی گئی ۔ انسان سیکھتا گیا۔ زندگی کے رنگ ڈھنگ سنورتے گئے ۔ ظاہر ہے پہلے اس نے اپنی بقا کی تدبیر کی ہوگی ۔ آسمان بہت دور تھا اور زمین اپنی اہلیہ کے ساتھ اتر آئے اس اکیلے انسان کو حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔ جنگل میں کانٹے دار جھاڑیاں تھیں اورخونخوار درندے تھے ۔ سوچنا پڑتا ہے کہ آیا انسان نے پہلا ہتھیار اپنے تحفظ کے لیے بنایا اور کیاپہلی سوچ اپنی حفاظت ہی کے لیے سوچی ؟یا پھر اسے پہلی سوچ کوئی اور آئی؟ اچھا پھر جب اسے بھوک لگی تواس نے زمیں سے وہ پہلی کیا چیز کھائی ۔شادی کے بعد آج بھی جن لڑکیوں کو کھانا بنانا سکھایا نہیں گیا ہوتا ، پہلے ہی دن وہ کھانا نہیں بنا پاتیں ، تو زمیں پر انسان کے پہلے دن کا مینیو کیا تھا۔یہ کچھ پکا کھا بھی سکا تھا یا جنت کی یاد اوڑھ کے بھوکا ہی سو گیا تھا۔ پہلے دن اس نے اپنی ننگی پیٹھ کیا ننگی زمین پر ہی بچھا دی تھی یا کچھ اور ہوا تھا۔ پہلی رات یہ سو بھی سکا تھا یا مارے پریشانی اورحیرت کے بس جاگتا ہی رہا تھا۔ کیااس ایک رات ان دونوں میاں بیوی نے مستقبل کے سہانے خواب بنے تھے یا یہ اپنے کیے پر ایک دوسرے کو دوش دے کے جھگڑتے ہی رہے تھے ؟آہستہ آہستہ بڑھتی ہی جاتی بھوک کی تسکین اور توجہ کے لیے آخر انسان کو کیا کھانا پڑا تھا۔ کوئی پھل یا پتے وغیرہ ۔ کیا خدا نے اس معاملے کو انسان پر چھوڑ دیا تھا، یا جنگلوں میں مارے مارے پھرتے انسان پر وحی کی رہنمائی کی چھتر چھایا کر دی تھی ؟ اچھا پھر کسی دن جب اس کے پیٹ میں درد اٹھا یا کہیں اور تو ا س نے جڑی بوٹیوں کی طرف خود ہی رجوع کر لیا تھا یا یہ دیر تک آسمانوں کی طرف دیکھتا رہا تھا۔ انسان کو پہلا زخم کب لگا تھااور اس وقت اس کا کتنا خون بہا تھا۔ یہ خون کو اور زخم کو کیا سمجھتا اور کہتا تھا؟ کیا وہ پہلا زخم مرد کو لگا تھا یا عورت کو ۔ کیا اس وقت ہی انسان نے مرد کے لیے کمانے کے اور عورت کے لیے گھر سنوارنے کے کاموں کی تقسیم کر لی تھی یا ہر جگہ یہ دونوں اکٹھے ہی دیکھے جاتے تھے ؟ انسان نے پہلا گھر کب بنایا تھا۔ پہلی سیاسی پارٹی کب بنائی تھی ۔ زچگی کے پہلے مرحلے انسان نے کیسے سہے تھے ؟اتنی آسائشوں کے باوجود یہ تو آج بھی انسان کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ انسان نے پہلا جھوٹ کب بولا تھا،پہلا فریب کب دیا تھا۔انسان کو مخلوق پر اپنی عقلی برتری کا احساس پہلی بارکب ہوا تھا؟ نظریہ ارتقا کے حامیوں نے ایک مووی بنائی ہے ، لوسی جس کا نام ہے ۔ کیا انسان کے اشرف مخلوق ہونے کا نظریہ رکھنے والے بھی انسان کے پہلے دن پر کوئی مووی بنا کے انسان کے ساتھ آسمان سے اتری مشکلات کا احاطہ کرسکتے ہیں؟کیا ہمارے مستنصر تارڑ صاحب اس ایک دن کا سفرنامہ لکھ کے اپنے تخیل سے ہماری کچھ مدد کر سکتے ہیں؟ کیا اس ایک دن کا ہم تصور کر سکتے ہیں ، جس پہلے دن پر پہلا قدم دھر کر انسان آج تک پہنچا ہے ۔ جب یہ اتنا کچھ سیکھ گیاہے اور دنیا پوری طرح آباد ہو گئی ہے۔تاکہ ہم پہلے انسان کی ہمت کو کچھ توداد دے سکیں ،تاکہ ہم انسان کی عظمت کا کچھ ٹھیک سے اندازہ کر سکیں اور تاکہ ہم اللہ کی نعمتِ عقل کے معجزات کا بخوبی جائزہ لے سکیں اور تاکہ ہم اللہ کے انسانوں پر احسانات کے متعلق کچھ سوچ سکیں۔