آئینہ دیکھ کر بھی پچھتایا مجھ کو کچھ بھی نظر نہیں آیا سوچتا ہوں کہ اب کدھر جائوں اس گلی سے تو میں گزر آیا ایک کیفیت عجیب سی ہے سخن بہانہ کرتے ہیں۔سچ اور جھوٹ کا فرق ختم ہو چکا۔جھوٹ تو باقاعدہ ایجاد ہوتے ہیں جبکہ سچ دریافت کرنا پڑتا ہے۔ وہ جو دل میں چھپایا تھا میں نے میری آنکھ سے ابھر آیا۔ساری محنت فضول لگتی ہے۔کوئی بھی راہ پر نہیں آیا۔لوگ بے چارے چارہ بنتے رہے۔ کوئی چارہ گر نہیں آیا۔ بلاول بی بی کی برسی پر خان صاحب پر خوب برسے۔ہو سکتا ہے خان صاحب اپنی پرکشش مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہوں کہ انہیں آتا ہے پیار میں غصہ ہمیں غصے پہ پیار آتا ہے۔بات مگر ایسی بھی نہیں کہ مذاق سوجھے ہمیں تو اخبار کی سرخی نے ہی ڈرا دیا کہ بلاول کے بیان کا نچوڑ ہی سرخی ٹھہری۔ کٹھ پتلی کو آخری وارننگ پارلیمان آ جائے اگر یہ بات کوئی نئی اور اچھوتی نہیں کہ صاحبان دانش یہ مشورہ عمران خاں کو دے چکے ہیں کہ پہلوان اکھاڑے ہی میں کشتی کرتا اچھا لگتا ہے سیاست کا میدان پارلیمان ہے۔دیکھا جائے تو بلاول میں خاصی میچورٹی آ چکی ہے۔وہ کئی محاذوں پر اپنے آپ کو نمایاں کرنے میں کامیاب ہیں: تجھ کو کچھ تو بنا دیا ہے ہم نے تھوڑا سا دھیان دے کر میں یہ پہلی مرتبہ لکھ رہا ہوں کہ اس ساری لاٹ میں ایک بلاول ہی ہیں جو اپنے آپ کو تہذیب کے دائرے میں رکھ کر منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ان کے منہ سے نکلا ہوا لفظ سلیکٹڈ خان صاحب کے ساتھ چپک کر رہ گیا ۔یہ صلاحیت یا خوبی بھٹو میں بھی تھی کسی کو آلو کہہ دیا تو وہ آلو نظر آنے لگا ۔بلاول نے اس سے پیشتر مودی کے حوالے سے عالمی سطح پر جو کچھ کہہ دیا اور پھر اس پر قائم بھی رہے سب کے سامنے ہے وہ مودی کی دہشت گردی اجاگر کرنے میں کامیاب رہے۔ بلاول کے مقابلے میں اگر خان صاحب کے حالات کا جائزہ لیں تو وہ مخدوش ہیں، یہ درست کہ انہیں تخت سے اترنے کے بعد زیادہ پذیرائی ملی اس کی وجہ آنے والی حکومت جسے خان صاحب امپورٹڈ حکومت کہتے آئے ہیں۔ بری کارکردگی ہے، لوگ شہباز شریف کی بات پر کہ انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ اتنے برے حالات ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے جا رہا ہے مسکراتے ہیں ۔گویا کہ شہباز شریف صاحب کچھ زیادہ ہی بھولے ہیں وہ بھولے نہیں وہ بُھولے ہیں اب پچھتا رہے ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی کے باعث پہلے ہی عوام ان کے خلاف غصے اور نفرت سے بھری بیٹھی ہے اور وہ فرما رہے ہیں کہ آئی ایم ایف نئی شرائط یا مطالبات کر رہی ہے وگرنہ قسط نہیں ملے گی گویا اب مہنگائی کی آگ پر پیٹرول چھڑکنے کی تیاری ہے ۔ خان صاحب اب وہ فرما رہے ہیں کہ سازش اندر سے ہوئی اور حقانی اور باجوہ کا گٹھ جوڑ بتا رہے ہیں غالباً یہ بلاول کی بات کی تائید ہے کہ وہ برسی پر کہہ رہے تھے خان صاحب کے خلاف سازش امریکہ نہیں کی۔ اسمبلی میں بھی وہ شاہ محمود قریشی پر خوب برستے رہے ایک اور بات خان صاحب کے حواریوں کے حوالے سے حیران کن ہے کہ ان میں پیرا شوٹرز پھر غائب ہو گئے ہیں : اپنے مطلب کے سوا لوگ کہاں ملتے ہیں اب کے بھی سانپ خزانے کیلئے آئے تھے ویسے بلاول کا نمایاں ہونا بہت کچھ بتا رہا ہے، نواز شریف کی آمد بھی اب صرف ڈھول کی آواز ہے جو دور آنے کی بجائے دور جا رہی ہے حکومت کا سارا بوجھ ن لیگ پر ہے یعنی شہبازشریف کے ناتواں کاندھوں پر ایسے لگتا ہے کہ وہ تھک چکے ہیں یا انہیں تھکا دیا گیا ہے۔اگر کوئی کام ہوا بھی ہے تو وہ بھی ان کے اپنوں تک محدود ہے یعنی کیسز کے ختم ہونے کا۔اب تو اسحاق ڈار کا نام بھی سننے میں نہیں آتا۔ انتخاب تو شاید ممکن نہیںمگر عبوری حکومت کی بات چل رہی ہے۔ مسئلہ اصل میں ہے ہی معیشت کا۔صرف نجم سیٹھی کی معیشت ٹھیک ہو گئی ہے کہ وہ رمیض راجہ کی جگہ آ گئے ہیں۔صورتحال ابتری کی طرف جا رہی ہے۔وہ جو کہتے ہیں کہ ہمیشہ نزلہ عضو ضعیف پر ہی گرتا ہے تو اب معیشت کی زبوں حالی صرف سرکاری ملازمین کو ہی متاثر کرے گی۔ یہ بے چارے سرکاری ملازمین کہ جن کی تنخواہیں پہلے ہی گرانی کے باعث آدھی رہ گئی ہوئی ہیں۔اب ان کے کچھ الائونسز بھی بند کئے جا رہے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ نظام کیسے اور کتنی دیر چل سکے گا۔آگے آگے پنشن بھی بند کی جا رہی ہے، جو بے چارے پنشن میں گزارہ کرتے ہیں، بری طرح مہنگائی کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، عمر کے اس حصہ میں وہ کما بھی نہیں سکتے ،پچھلی مرتبہ پنشن میں صرف 5فیصد اضافہ کیا گیا تھا جبکہ عام 15فیصد اضافہ ہوا تھا۔ حکومت کے اس اقدام سے زیادہ تعلیم اور صحت متاثر ہونگے اور جب سرکاری طور پر یہ دو محکمے متاثر ہونگے اور دونوں سطح پر پرائیویٹ نظام ان کی جگہ لے گا تو دونوں محکمے مکمل طور پر کاروباری ہو جائیں گے، غریب تو کیا مڈل کلاس کی دسترس سے بھی باہر۔حکومت تو پہلے بھی ضرورت مندوں کے لئے کچھ نہیں کر رہی یہ تو الخدمت‘ اخوت اور ایسی دوسری تنظیمیں ہیں جو مخیر حضرات کے دم قدم سے کچھ معاملہ سنبھالے ہوئے ہیں۔اب تو خان کے کھولے ہوئے طعام جانے بھی پتہ نہیں ہیں کہ نہیں۔چلیے آخر میں بلاول ہی پر ختم کرتے ہیں کہ وہ نئے محاورے بناتے آ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ کانپیں ٹانگتی ہیں تو اور یہ محاورہ زبان زد عام ہو گیا۔اب انہوں نے فرمایا ہے کہ آسمان سے سیلاب گر رہا تھا، اصل میں یہ مغربی تہذیب یا بدیسی زبان کا اثر ہو سکتا ہے ویسے اردو میں وہ عمران کے ہم پلہ ہیں،خان صاحب بھی تونسہ کو چونسہ ہی کہتے رہے۔ن م راشد کا ایک شعر: اس قید بے بسی نہیں دیکھی سانس چلتا ہو زندگی نہ رہے