اگر آپ کو تاریخ اور جغرافیے کے سینے میں اترنا ہے۔ وطنِ عزیز کے ایک ایک پہلو پہ تفصیلی اور تسلی بخش آگاہی چاہیے، خبر سے نظر کی جانب مراجعت درکار ہے، تو آپ کو معروف ماہرِ قانون جناب ایس ایم ظفر کی سات سو صفحات پر مشتمل تازہ ترین اور خوب صورت طباعت کی حامل بائیو گرافی ’’مکالمہ‘‘ سے رجوع کرنا ہوگا، جو یقینا ایک نادر علمی و تاریخی دستاویز ہے اور حقیقی طور پر ہماری زندگی کے اہم موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں ایک وکیل کی مشاورت، ایک دانش مند کے تجزیات، ایک محبِ وطن کی دردمندی قدم قدم پر دیکھی جا سکتی ہے۔ کتاب کے اس عنوان کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ شعبۂ ابلاغیات کے پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک کے ساتھ کیے گئے مکالمات کا ایک طویل سلسلہ ہے، جس کا دورانیہ ربع صدی پر محیط ہے۔ اس سلسلے میں دونوں شخصیات کی استقامت کی داد دینا پڑتی ہے۔ مذکورہ کتاب مصنف کے مختصر حالاتِ زندگی، تصورِ پاکستان، انسانی حقوق، حقوقِ نسواں، عدلیہ، جمہوریت، مذہب، سائنسی امور، مسئلۂ کشمیر، پاک بھارت تعلقات، مسئلہ فلسطین و اسرائیل، بین الاقوامی امور، اہم قومی مسائل،دہشت گردی، کالا باغ ڈیم، ذرائع ابلاغ، طنز و مزاح، تفریح اور متفرق جیسے متنوع قومی، سماجی، مذہبی، سیاسی، تفریحی اور بین الاقوامی موضوعات پر مشتمل ہے۔ جناب ایس ایم ظفر جو 6 جون 1930 کو رنگون میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد صاحب کاروبار کے سلسلے میں مقیم تھے۔ بچپن کے بارہ برس وہیں بسر ہوئے۔ ابتدائی تعلیم راندھیر اسلامیہ ہائی سکول رنگون سے حاصل کی۔ اس کے بعد دوسری جنگِ عظیم کے خطرات کے پیشِ نظر اپنے گاؤں چک قاضیاں گورداس پور (بعد ازاں شکر گڑھ) آ گئے۔ میٹرک غلام دین ہائی سکول میں اینٹوں، ٹاٹوں وغیرہ پہ بیٹھ کر کیا۔ 1945 ء سے 1949ء کا زمانہ گورنمنٹ کالج لاہور میں گزرا۔ اس حساب سے حکومتِ برطانیہ اور حکومتِ پاکستان کے جی سی کے دونوں ادوار دیکھے۔ اس زمانے میں پطرس بخاری بطور پرنسپل واپس آ چکے تھے۔ ان کی انتظامی اور اخلاقی صلاحیتوں کے گرویدہ ہوئے۔ ظفر صاحب کے والد بھی پاکستان کے ہر والد کی طرح بچے کو سائنس پڑھانا چاہتے تھے لیکن یہ اپنے شوق کو مقدم جانتے ہوئے آرٹس اور پھر لاء کی طرف آ گئے۔ ایس ایم ظفر صاحب کے نزدیک او آئی سی کے چھپن ممبر مسلم ممالک میںصرف ترکی اور اب بنگلہ دیش جمہوریت کے بین الاقوامی معیار پہ پورے اترتے ہیں۔ انکے خیال میں پاکستان اور بھارت میں جمہوریت کا بنیادی فرق یہی ہے کہ ہمارے قائد ملک بنانے کے بعد صرف ایک سال زندہ رہے اور اُدھر نہرو کو ملکی اساس مضبوط کرنے کے لیے اٹھارہ سال مل گئے۔ قائدِ اعظم اور دنیا بھر کے عظیم وکلاء کی مثالوں سے انھوں نے آج کے وکیلوں، ججوں کو یہ نکتہ باور کرانے کی بھی کوشش کی ہے کہ جو وکیل یا جج محض قانون کی کتابوں سے مثالیں دیکھ کر دلائل یا فیصلے تیار کرتے ہیں، ان میں اور تاریخ، فلسفہ، ادب اور سوشل سائنسز کا مطالعہ کرنے والوں میں وہی فرق ہے جو ایک مستری اور معمار میں ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے جسٹس شبیر احمد، جسٹس منیر، حسین شہید سہروردی، رستم کیانی اور دنیا کے بڑے بڑے وکلا اور ججز کی مزے دار باتوں سے قانونی موشگافیوں کے نئے در وا کیے ہیں۔ بالخصوص جسٹس کیانی کا صدر ایوب خان اور نواب آف کالا باغ کی موجودگی میں یہ کہنا کہ باقی سیاست دان عوام کوسبز باغ دکھاتے تھے، آپ وہ سچے حکمران ہیں جنھوں نے ہمیں کالا باغ دکھایا۔ یا پھر حسین شہید سہروردی کا مخالف وکیل محمد علی قصوری کی اونچی آواز کی بحث کے دوران آخری قطار میں بیٹھنے کی یہ وجہ بیان کرنا کہ مَیں نے اپنے موکل سے محض بحث کرنے کی فیس لی ہے، قصوری کی اونچی آواز سننے کی نہیں! کتاب کا طنزو مزاح والا باب نہایت مزے دار ہے، جس میں تاریخی شخصیات کی لطافت آمیز طنز کے نہایت عمدہ نمونے بیان کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر تخفیف اسلحہ کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کہ جس میں روس اور امریکا کی نمائندگی کے لیے خروشیف اور جیک کینڈی موجود تھے، خروشیف کا یہ کہنا کہ مَیں تب تک دستخط نہیں کروں گا جب تک امریکی صدر آدم اور حوا کو کیمونسٹ تسلیم نہ کر لیں اور امریکی صدر کا مشیران کی رائے کے بعد یہ جواب دینا کہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی دقت نہیں کہ آدم اور حوا کے پاس پہننے کو کپڑے نہ تھے، انھیں سیب تک کھانے سے منع کیا گیا، وہ پھر بھی خوش تھے تو یقینا کیمونسٹ ہی ہوں گے… جناب ایس ایم ظفر ایک روشن خیال مسلمان ہیں، وہ اپنے ان مصاحبوں میں حساس مذہبی موضوعات کو بھی نہایت سلیقے سے زیرِ بحث لائے ہیں۔ وہ دنیا بھر میں قرآن اور ہمارے نبی ﷺ کی شان میںہونے والی گستاخیوں پہ اظہارِ افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات پہ بھی تأسف کا اظہار کرتے ہیںکہ ہمیں سب سے پہلے اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہم بھی اپنے آقا ﷺ کی سنت اور قرآنی احکامات کو بھلا کر اوراصل دین کی بجائے فرقہ پرستی کو ہوا دے کے بے ادبی و گستاخی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ ان کے نزدیک دنیا کا سب سے پہلا تحریری آئین ریاستِ مدینہ کا ہے، جسے بے شمار ممالک میں احترام کا درجہ حاصل ہے ۔اس کے علاوہ ڈاکٹر عبدالقدیر پر ہالینڈ میں درج ہونے والے چوری کے مقدمے اور اسے حکمتِ عملی کے ساتھ ختم کرانے کی رُوداد بڑی دلچسپ ہے۔ آج چونکہ عید الاضحی کا دن ہے تو اس حوالے سے بھی ظفر صاحب کا یہ مشورہ بڑا صائب ہے کہ صرف جانور خریدنے پہ زور نہ دیں بلکہ ایک تو قربان گاہوں میں جانوروں کو متشدد انداز میں ذبح مت کروائیں اور دوسرے قربانی کے فلسفے کو سمجھتے ہوئے بکروں کے ساتھ اپنی جھوٹی اناؤں کو بھی قربان کریں۔ کتاب قلم فاؤنڈیشن لاہور نے شائع کی ہے۔