تجزیہ:سید انورمحمود جیسا کہ ہم اپنے معروف اور ممتاز سیاسی اور معاشی تجزیہ کاروں اور ماہرین سے سنتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاست نفع نقصان برابر برابر کا کھیل ہے ۔ میں تکلیف اور ذہنی اذیت کیساتھ ان کے خیالات شیئر کرتا رہتا ہوں کیونکہ یہ کھیل ہمیں ایسے گڑھے میں دھکیل رہا ہے جہاں سے وطن کو واپس لانا شاید ممکن نہ رہے ۔ جیسا کہ ایک کالم نگار نے حال ہی میں مناسب طریقے سے واضح کیا کہ عمران خان کی کامیابی(اسکی حکومت کی کامیابی) کو نواز شریف کا نقصان ہے اور اسکے برعکس بھی یعنی عمران کی ناکامی نواز شریف کی کامیابی۔ یہ ملک آگے کیسے بڑھے گا؟ اس ملک کے عوام غربت اور محرومیوں سے کیسے نجات پائیں گے ؟ لیکن کون پروا کرتا ہے ؟اسی لئے حکومت کی جانب سے پاکستان سٹیل ملز کو پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے چلانے کے دیر سے کئے گئے لیکن ضروری فیصلے پر اپوزیشن چلا رہی ہے اور ناراضی کا اظہار کر رہی ہے ۔کوئی بھی 2 ٹریلین سے زائد روپے کے متعلق بات نہیں کر رہا تین ریاستی ملکیتی ادارے اسی قیمت پر اس ملک، عوام کو اور ٹیکس دہندگان کو پڑ رہے ہیں۔کوئی بھی اس پر غور نہیں کر رہا کہ یہ رقم ان پیسوں سے زیادہ ہے جو پاکستان اپنے دفاع پر خرچ کرتا ہے ۔ وزیر حماد اظہر نے میڈیا کو بتایا کہ سٹیل ملز 2008 تک منافع بخش ادارہ تھا جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو اسکے پانچ سال میں اس ادارے پر نہ صرف غیرضروری افرادی قوت کا بوجھ ڈالا گیا بلکہ یہ 100 ارب روپے خسارے میں چلی گئی۔ اس عرصے میں اس کی آپریٹنگ صلاحیت 40فیصد کم ہو گئی۔ پھر ن لیگ کی حکومت آئی اور اس نے اپنے دور میں آپریٹنگ صلاحیت 20 فیصد کی اور پھر 6فیصد تک یہاں تک کہ 2015 میں اسے بند کر دیا۔ تب سے ریاست ملز کو بیل آؤٹ پیکجز کی مد میں 92 ارب روپے دے چکی ہے جبکہ بند ملز کی تنخواہوں اور پنشن کی مد میں 55 ارب روپے دے چکی ہے ۔اور جب ریاست پر سے اس بوجھ کو ہٹانے کا مطلوبہ اور ٹھیک فیصلہ سامنے آیا تو یہی جماعتیں بالخصوص پیپلز پارٹی شور مچا رہی ہے اور بلاول نے کہا ہے کہ وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔ ڈیڑھ عشرہ قبل اس وقت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے ایسا نہیں ہونے دیا اور اس ملک پر تقریباً 500 ارب روپے کا بوجھ ڈالا گیا اور اب گزشتہ دو حکومتوں نے اس بوجھ میں اضافہ کیا ہے ۔بجائے اس کے کہ اتنا بڑا نقصان پہنچانے پر ان کا احتساب کیا جاتا وہ دن کی روشنی میں مزے لے رہی ہیں اور دنیا کو بتا رہی ہیں کہ وہ یہی غلطی دوہرائیں گی اور ملازمین کو دوبارہ غیر کارآمد بنا دیں گی۔یہی سب کچھ پی آئی اے اور پاکستان ریلویز کے ساتھ بھی کیا گیا، یہاں دیگر اداروں کیساتھ پی ٹی وی اور ریڈیو کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ اب دیکھیں کہ دو ریاستی نشریاتی ادارے آج کس حال میں ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے دونوں اداروں میں قابل پروڈیوسرز اور نیوز اینکرز بھرتی کرنے اور پرانے ٹرانسمیٹرز اور آلات تبدیل کرنے کے بجائے سینکڑوں کلرک اور نائب قاصد بھرتی کر دئیے ۔ملک کو اس زبوں حالی میں دھکیلنے کے بعد یہ حکومت کی جانب سے کئے گئے معاشی طور پر ایک مضبوط فیصلے کو سیاسی بنایا جا رہا ہے ۔ کیوں؟ کیونکہ اگر اس بڑے بوجھ سے چھٹکارا پا لیا تو پھر حکومت اور پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہو جائینگے ۔ اور یہ عمران خان کی کامیابی اور نواز شریف کی ناکامی ہوگی، جیسا کہ میرے ایک ممتاز تجزیہ کار دوست نے کہا ہے ۔ اب نفع نقصان برابر والا کھیل پاکستان میں کھیلا جا رہا ہے اورکروڑوں پاکستانی دو وقت کی روٹی اور اپنے گھر کا انتظار کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کا موقف انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ ہے ، یہ ملک کے اور اس حکومت کے مفاد میں بھی ہے کہ سیاسی الزام بازی کا طریقہ بتدیل کیا جائے ۔احتساب کے عمل کو سبک رفتاری سے چلنے دیں اور حکومت صرف متعلقہ ادارے کی درخواست پر ہی معاونت کرے ۔ اس پر عمل کرنا چاہئے اور اسے پراسیس سے الگ حیثیت میں دیکھا جائے ۔ دونوں اطراف سے شائستہ اور متحمل زبان استعمال ہونی چاہئے ۔ پاکستان اس حدت کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اسے آگے بڑھنے کیلئے استحکام کی ضرورت ہے ۔ بڑھتی ہوئی وبا کے دوران اپوزیشن کا جلسوں ریلیوں پر اصرار اور لوگوں کو خودکشی کی جانب لے جانا احمقانہ خودغرضی ہے ۔ لیکن یہ نفع نقصان برابر والا کھیل ہے جو یہاں جاری ہے ۔ خدا پاکستان کی مدد کرے ۔ تجزیہ،انورمحمود