دُور سے دیکھنے پر وہ کسی کھاتے پیتے گھر کا بچہ لگتا تھا، قریب سے دیکھنے پر بھی ایسا ہی لگتا تھا۔ ظاہر میں گورا چِٹا، باطن سب کا دیکھا ڈِٹھا، جسم پلا پلایا، نام بنا بنایا، خواب دیکھا دکھایا، ہر کام ہوا ہوایا، ذہن چربیلا، نخریلا، موٹا تازہ، بے اندازہ… جانے کیوں اسے دیکھ کر لالہ بسمل کا یہ پانجا یاد آ جاتا: دولت کی ریل پیل کے اس اندھے بَیل نے اِک سیدھے سادھے شخص کو زر گر بنا دیا کیچپ ، پیاز ، انڈا ، چکن ، تھوڑا سا سلاد بازار بھر کی ساری چیزیں سمیٹ کر جب کچھ نہ بن سکا تو برگر بنا دیا اس کی جیبیں ہمیشہ گولوں، گولیوں، عافیوں، ٹافیوں، لم لیٹوں، چاکلیٹوں، چاٹ لیٹوں، اَونوں بونوں، کھلونوں، سموسوں، چاپلوسوں سے بھری رہتیں، جن سے وہ ارد گرد کے شاگرد بچوں بلکہ بڑے بڑوں کے دل، مزاج، ہمدردیاں جیت لیا کرتا تھا۔ اس کی صحت، معدہ اور اعتماد بتاتے تھے کہ اسے کھانے اور کھاتے چلے جانے، پینے اور پیتے چلے جانے بلکہ کھلانے پلانے کی آخری حد تک جانے میں بھی مہارتِ تامہ حاصل تھی۔ کبھی کبھی بھوک کی ایسی شدت طاری ہوتی کہ بعض کھابے تو وہ ہڈی سمیت کھانے کی کوشش کرتا، اسی کوشش میں کئی بار ہڈی گلے میں بھی پھنسی، قیاس، مقیاس کے دانت بھی ٹوٹے، ایک آدھ بار تو ذہنی و جسمانی معدے کی حدود کی انتہا جاننے کی کوشش میں جان کے لالے بھی پڑ گئے لیکن پھر کوئی نہ کوئی حکیم مدد کو آن پہنچتا یا کوئی نہ کوئی اندرونی و بیرونی سکیم کام کر جاتی۔ اپنے حکیم جی اُس کے معدے کو دنیا بھر کے کھابوں، کبابوں، شبابوں کا قبرستان کہا کرتے۔ لوگوں کی زبان کون روک سکتا ہے،کہنے والے تو اس سیاست خور بچے کو ’ریاست خور بچہ‘ بھی کہتے تھے۔ معدے کے علاوہ کسی عضو سے بے تکلفی کو وہ کارِ زیاں سمجھتا تھا، ویسے بھی اس کا خیال تھا کہ دماغ اور زبان کے معاملات چلانے کے لیے جب چند ٹکوں کے عوض ہر طرح کے جاں فشا مزدور، جاہ طلبی میں اپنی خوشامدانہ ادا کے ہاتھوں مجبور اور قدم قدم پہ دُم ہلاتے مشہور، ہمہ وقت دستیاب ہیں تو اس بکھیڑے میں کون پڑے؟ میڈیا نامی بلا کو تو اس نے اس قدر رام کر رکھا تھا کہ وہاں گنگنانے سے زیادہ گُن گانے کی عادت راسخ ہو چکی تھی۔ ’بِکنے والوں نے رفعتیں پائیں‘ کے مقولے کو اُس نے تسلسل اور استقامت کے ساتھ یوں سچ کر دکھایا تھا کہ صغیر احمد صغیر جیسے شاعر چیختے چِلّاتے ہی رہ گئے کہ: طالبِ درہم و دینار کی ایسی تیسی یعنی درباری قلم کار کی ایسی تیسی نمک حلالی کرتے کرتے ایک زمانے میں ہامی قلم کاروں کا انداز تو کچھ اس قسم کا ہو چکا تھا:’صاحب جی نے آنکھیں کھولیں، دنیا کو پیار سے دیکھا، دل میں بسایا، پاؤں پلنگ سے نیچے اتارے اور پھر بیٹھے بٹھائے انھیں پسارنے کا ارادہ کر لیا۔‘ اسی شعبے کی نمک خواری و دلداری کی بنا پر اُس تصوراتی ہیرو کی باتیں، گھاتیں،کھانسی، چھینکیں، دَبکے، دھمکیاں، یاریاں، بیماریاں، اداکاریاں تک پلک جھپکتے میں وائرل ہو جایا کرتیں۔ وہ طفلِ مطلب، فنِ پہلوانی سمیت کئی طرح کے کھیل کھلواڑوں کا از حد شوق رکھتا تھا لیکن اس وقت تک میدان میں اُترنے سے گریز کرتا، جب تک ساری ہوائیں موافق اور ساری بلائیں مرضی مطابق نہ ہو جاتیں۔وہ سودے بازی کرنے، قلابازی لگانے اور راضی بازی رکھنے کے جملہ امور میں ماہر گردانا جاتا تھا لیکن سر دھڑ کی بازی جیسے محاوروں پہ یقین نہیںرکھتا تھا۔ ایک زمانے میں ٹی وی پہ ’سکس ملین ڈالر مین‘ کی دھوم ہوتی تھی، اسی نسبت سے یار لوگ اُسے ’فکس ملین ڈالر مین‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔وہ بڑے بڑے پلازے،لوگوں کے اندازے، گاہک موٹے تازے، حتیٰ کہ بعض اوقات تو جنازے تک خریدنے کے حوالے سے مشہور تھا۔ اس نے مال و زر کے زور پر نہ صرف بہت سے اکھاڑے زیرِ نگیں کر رکھے تھے بلکہ کُشتی اور کُشتن کے سارے داؤ پیچ بھی ایک مشہورِ زماں کن ٹُٹے پہلوان سے سیکھ رکھے تھے ،یہاں تک کہ کئی طرح کی ٹافیوں، ہزاروں رنگ کی چاکلیٹوں کا لالچ دے دے کے وہ ایسے ہم مزاج تماشائی بھی اکٹھے کر لیتا، جو اس مہارت پہ پھولے نہیں سماتے تھے کہ ہم اپنی جانب اچھالی جانے والی کوئی ہڈی زمین پر نہیں گرنے دیتے۔ایک زمانے میں اسی حوالے سے کسی شاعر کی غزل کا یہ شعر بہت مشہور ہوا تھا: چَینل میرے ساتھ چلیں تو چھاتے چھاتے چھا جاتا ہوں لفظ’ک‘سے شروع ہونیوالے کھیلوں کھلونوں سے اسے ہمیشہ سے بہت دلچسپی تھی۔ان میںکسی زمانے تک کرکٹ کا مشغلہ سب سے نمایاں تھا۔ شہر کے بڑے بڑے انکھاں والے، اِس کھلاڑی کو، ہاف والیاں دینے پر اُتارُو اور آمادہ ہوا کرتے، یہ عادت آج تک اس کے مزاج کا حصہ ہے۔ پھر اس کھیل ستے متعلق مرزا مفتہ کا یہ جملہ پڑھ کے تائب ہو گئے کہ: ’کرکٹ سے کردار اور کارکردگی کے دونوں ’ک‘ نکال دیے جائیں تو پیچھے رَٹ ہی رَٹ رہ جاتی ہے۔‘ اس کے بعد ساری توجہ کشکول پہ مرکوز ہو گئی، جس سے نائنٹی نروس کی دہائی میں خوب کھیلا بلکہ کھل کھیلا۔ ایک بار جذبات میں آ کے یا تماشائیوں سے کلیپ لینے کے چکر میں اسے بے دردی سے توڑ بھی ڈالا لیکن پھر جلد ہی بڑھتی ہوئی اغراض اور امراض کے پیشِ نظر نیا بنوا لیا،جو پہلے والے سے سائز اور سرپرائز میں بہت بڑا تھا۔ جب اس کھیل سے جی بھر گیا تو جس طرح بقول یونس بٹ ’بابرہ شریف کا ہر لباس ایک دو بار پہننے کے بعد لباسِ ’فاخرہ‘ بن جاتا تھا‘ اسی طرح اس کھلونے پہ چھوٹا بھائی قابض ہو گیا۔ وہ اسے گلے میں ڈال کے ملکوں ملکوں گھوما کیا۔ اس وقت باز آیا جب لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اس وقت ملک جس نہج پر پہنچ چکا ہے، اسیکسی شریف کی نہیں، درود شریف کی ضرورت ہے۔ ایک شاعر نے تو یہاں تک کہا: ڈوبتی ناؤ تم سے کیا پُوچھے ناخداؤ! تمھیں خدا پُوچھے ایک دن تو حد ہی ہو گئی کہ ایک دھان پان سی لڑکی اس کے مقابلے میں آ گئی، پہلے تو اِس نے اُسے ایزی لیا لیکن ایک دن اُس مٹیار نے اسے ایسی زور کی پٹکی ماری کہ یہ منھ کے بَل گرتے گرتے بچا۔ اُن دنوں یہ ’ک‘ سے کردار والے کھلونے سے ایسا کھیلا کہ لوگ اسے ’حلقہ بگوش الزام‘ سمجھنے لگے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ اُس ناری کے پیچھے بھی ایک کھلاڑی تھا۔ پھر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ایک عجیب و غریب پہلون نے اسے آ للکارا… اِس کی حیرت اور غصے کی کوئی انتہا نہ رہی، جب آس پاس کے لوگ اِس کی بجائے اُس کی کارکردگی دیکھ کے تالیاں بجانے لگے۔ چنانچہ اس کی ضد پر مخالف کھلاڑی کی مُشکیں باندھ کر اسے میدان میں اترنے کی دعوت دی گئی لیکن لوگ بتاتے ہیں کہ اب تو اسے تماشائیوں اور مخالف کی کھلی آنکھوں سے بھی خوف آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل اس کا پسندیدہ کھلونا ’ک‘ سے کبوتر قرار پا چکا ہے۔ دھاڑنے والے شیر سے شروع ہونے والا سفر پچکارنے والے کبوتر تک آ پہنچا ہے، جبکہ چاروں طرف، بقول شاعر: وعدوں کا اِک ڈھیر پڑا ہے مَیں سمجھا کہ شیر پڑا ہے