رمضان المبارک کا برکتوں والا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور دنیا بھر میں تمام مسلمان مذہبی جوش و خروش سے اس بابرکت مہینے میں اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرنے کیساتھ ساتھ اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں گے۔ اہل ایمان سال بھر کے گناہوں سے معافی مانگنے کے علاوہ قرآن مجید سے جڑتے ہوئے تزکیہ نفس کریں گے اور آئندہ صراط مستقیم پر چلنے کا عہد کریں گے۔ لیکن یہاں بات اہل ایمان کی ہورہی ہے، اہل پاکستان کی نہیں۔ قارئین کرام سے پیشگی معذرت کیساتھ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہا کہ23 مارچ کے تاریخی دن کیساتھ یکم رمضان المبارک کا آغاز کرنے والے پاکستانیوں کو اللہ یاد ہے نا اس قومی دن کا عہد۔رمضان کے شروع ہوتے ہی منافع خوروں اور حد سے بڑھے لالچی ذخیرہ اندوزوں نے جو چھریاں تیز کی ہیں وہ یقیناً لوگوں کی جیبوں پہ تو چلیں گی ہی ، لیکن ساتھ ہی انکے اعمال پہ بھی چلیں گی۔ رمضان کا مبارک مہینہ گناہوں سے بخشش طلب کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے لیکن اس قوم کی بد قسمتی ہے کہ باقی سارے سال کی طرح اس مہینے میں بھی ہم اپنے نفس کو قابو نہیں کر سکتے۔ شیطان کو تو رسیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے کہ ایمان والوں کے پاس گناہ کرنے کا جواز باقی نا رہے لیکن پاکستان میں شیطان ہمیں ہر جگہ دندناتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ مہنگائی کا عذاب کیا پہلے کم تھا کہ رمضان شروع ہوتے ہی قیمتوں کو مزید آگ لگ گئی ہے اور بلاشبہ یہ آگ ان منافع خوروں کے اعمال صالحہ کو جلا کر راکھ کر دے گی جنکے دلوں میں خوف خدا ہے نا غریب کی ہمدردی۔ بنیادی اشیائے خورد و نوش عام آدمی کی پہنچ سے انتہائی دور ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ غریب اپنا چولہا کیسے چلاتے ہیں؟ کیا کھاتے ہیں؟اور کیسے روزہ گزارتے ہیں؟سبزی،پھل، پکانے کا تیل اور گھی،دالیں،چاول، دودھ، دہی، چینی آٹا کون سی ایسی شے ہے جو سستے اور مناسب دواموں دستیاب ہو۔ تقریباً تمام پھل تین سو روپے کلو سے تجاوز کر چکے ہیں اور ہر سبزی کم وبیش دو سو روپے کلو سے اوپر میں بک رہی ہے۔ مزید ستم پیٹرول اور بجلی گیس کے بلوں نے پوری کر دی ہے جو ایسے بھاری آتے ہیں گویا ہر پاکستانی کے گھر میں چوبیس گھنٹے اے سی اور صبح و شام گیزر اور چولہے تپ رہے ہوں۔ ہمیشہ کی طرح حکومتی باتیں صرف دعووں کی حد تک قائم ہیں جبکہ قیمتوں پہ کنٹرول کہیں نظر نہیں آ رہا۔ بائیس کروڑ سے تجاوز کرتی آبادی والے ملک میں جہاں اکثریت غریبوں اور بے روزگاروں کی ہے، وہاں آٹے میں نمک کے برابر ملنے والا فری آٹا کیا واقعی لوگوں کو ریلیف فراہم کر سکے گا؟ حکومت کی یہ پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک جانب فری آٹا دینے کی خوشخبری تو دوسری جانب دوگنی قیمتوں میں دی جانے والی اشیائ! انصاف کا یہ ترازو میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ میں حیران ہوں کہ بحیثیت مجموعی ہم کیسی قوم ہیں۔؟ ہم اپنے حق کے لیے کیوں آواز نہیں اٹھاتے؟ عام عوام میں اتنی جرات اور ہمت کیوں نہیں کہ وہ سڑکوں پہ نکل کے احتجاج کریں کہ خدارا سارا سال ہمیں نوچتے ہو ہماری خون پسینے کی کمائی بھاری بھرکم ٹیکسوں اور قیمتوں کی صورت لوٹتے ہو ، صرف ایک ماہ۔۔۔ صرف ایک ماہ کے لیے ہمیں بخش دو۔ صرف ایک ماہ ہمیں بھی سکون سے جینے دو۔ اپنے بچوں کو اچھا کھانا کھلانے دو۔ہمیں بھی پھل، فروٹ، سبزی، گوشت تک رسائی دے دو۔ لیکن بے حسی اور بے رحمی اوڑھے بیضمیر معاشرے میں کون غریب کی سنے گا؟؟ ہم کیسے مسلمان ہیں اور کس منہ سے ایمان کے دعوے دار ہیں؟ دنیا بھر میں رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی قیمتوں میں کمی کر دی جاتی ہے۔مسلم و غیر مسلم ممالک میں بھی پچاس سے ستر فیصد ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے۔ بلکہ رمضان المبارک سے دس پندرہ دن پہلے سے قیمتوں میں نمایاں کمی کر دی جاتی ہے تاکہ ہر طبقے کے لوگ دل کھول کر ہر نعمت خداوندی سے مستفید ہو سکیں۔ بلا امتیاز مسلم و غیر مسلم سبھی ان رعائیتی قیمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔عرب ممالک کے ساتھ امریکہ و یورپ میں رمضان سیل کی بھرمار ہوتی ہے اور روزے دار بہترین افطاری کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تو رمضان کا مہینہ اس لیے عطا کیا کہ ہم بھوکے پیٹ کی تڑپ محسوس کر سکیں۔ سارا دن بھوکے پیاسے رہ کر غریب کے فاقے کو جان سکیں۔ یہ برکتوں والا مہینہ صرف نماز ، روزے اور عبادات و نوافل کے لیے نہیں آیا۔ بلکہ اس کا اصل مقصد سال بھر کے گناہوں اور کوہتایوں سے توبہ تائب ہونے کے ساتھ ساتھ تقوی اختیار کرنا ہے۔ جبکہ پاکستان میں اسے سال بھر کی کمائی کا بھرپور موقع غنیمت جانا جاتا ہے۔ چھوٹے سا چھوٹا دکاندار ہو، ریڑھی والا ہو یا بڑے سے بڑا کاروباری طبقہ ، سبھی سال بھر کی کمائی صرف اس مہینے میں جمع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ خاص طور پر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں وہ گھمسان کا رن پڑا ہوتا ہے کہ گویا اگلا دن کسی نے نہیں دیکھنا سو جتنا لوٹنا ہے آج اور ابھی لوٹ لو۔ پہلا عشرہ رحمت کا ، دوسرا مغفرت کا اور تیسرا جہنم کے نجات کا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں باقی معاملات کی طرح نیکیوں کی گنگا بھی الٹی بہتی ہے۔ پہلے عشرے سے لے کر آخری عشرے تک چوری، رشوت خوری ، بے ایمانی، ذخیرہ اندوزی ، ناجائز منافع خوری اور حرام کمائی کی گنگا میں ( الا ما شاء اللہ) سبھی گوڈوں گوڈوں ڈوبے ہوتے ہیں۔ اس گنگا جمنا میں جی بھر کے نہانے کے بعد مسجدوں کا رخ کیا جاتا ہے ، صفیں نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں ، قرآن پہ قرآن ختم کیے جاتے ہیں۔ غریب اور عام آدمی کو لوٹنے کے بعد اسی "بابرکت کمائی" سے صدقہ و خیرات بھی کیا جاتا ہے۔ سال بھر کی کمائی اکٹھی کرنے والے درحقیقت اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں انکی یہ کمائی کسی کام کی نہیں۔سال بھر کی یہ کمائی دراصل انہی کے لیے وبال جان اور عذابِ الٰہی کو دعوت دینے کا ذریعہ بن جائے گی۔ان بے ضمیر و بے حس لوگوں کو کیا خبر کہ یہ مبارک مہینہ تو درحقیقت جی بھر کے نیکیاں سمیٹنے کا ہے،اللہ تعالیٰ سے رحمت و بخشش طلب کرنے کا ہے، تقوی اور پرہیز گاری کا ہے ناں کہ سال بھر کی کمائی ایک ہی ماہ میں جمع کرنے کا نام رمضان ہے۔