پاکستان میں انصاف دینے والے ادارے یعنی عدالتیں اس وقت مشکلات کا شکار ہیں،،، یہ وہی عدالتیں ہیں جن کی رینکنگ دنیا بھر کے انصاف فراہم کرنے والے اداروں میں آخری نمبروں میں آتی ہیں۔ اس کی وجوہات بہت سی ہیں،یہ عدالتیں کبھی سیاسی لوگوں کے دبائو میں رہتی ہیں، کبھی عوامی دبائو میں تو کبھی اداروں کے دبائو میں۔ اسی وجہ سے میرٹ پر فیصلے آنا تو شاید ممکن ہی نہیں ہوتا۔ اور اب کی بار تو معاملہ اس قدر سنگینی اختیار کر گیا کہ سنبھلنا مشکل ہوگیا ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہوا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھا ہے جس میں عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت اور ججز پر اثرانداز ہونے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلانے کی درخواست کی گئی ہے۔ جوڈیشل کمیشن کو خط لکھنے والوں میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔مذکورہ ججز کے لکھے گئے مشترکہ خط کی کاپی سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ممبران اور سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان کو بھجوائی گئی ہے۔خط میں عدالتی امور میں ایگزیکٹو اور ایجنسیوں کی مداخلت کا ذکر کیا گیا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ عدالتی امور میں مداخلت پر کنونشن طلب کرنے سے دیگر عدالتوں میں ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں بھی معلومات سامنے آئیں گی۔اس کے ساتھ خط میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ کنونشن سے عدلیہ کی آزادی کے بارے میں مزید معاونت ملے گی۔سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹیریان وائٹ کیس کے فیصلے کے بعد اداروں کی جانب سے بڑھنے والے دباؤ کے نتیجے میں فیصلے دینے والے 2 ججز نے اپنی رہائش گاہ پر اضافی سکیورٹی مانگی۔ ایک جج کو تناؤ کے باعث ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے اسپتال میں میں داخل ہونا پڑا۔ یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور 2 مئی 2023 کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے سامنے بھی رکھا تھا۔یہ خط واقعی پوری عدلیہ کی کہانی کھول کھول کر بیان کر رہا ہے۔اس پر وزیر اعظم نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ملاقات کے بعد انکوائری کمیشن بنانے کا بھی اعلان کیا ہے، جسے ججز اور کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مسترد کر دیا گیا ہے،اُن کا الزام ہے کہ یہ معاملے کو طول دینے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔میرے خیال میں انکوائری کی کیا ضرورت ہے؟ جب سب کچھ شفاف ہے۔ اگر انکوائری ہی کروانی ہے تو کنونشن بلا لیا جائے،، لیکن پاکستان میں کسی چیز کے حوالے سے آپ نے تاخیری حربہ بنانا ہو تو اُس کے لیے یا تو کمیٹی بنا دی جاتی ہے، یا انکوائری کمیشن بنا دیا جاتا ہے۔میرے خیال میں اگر سیاسی جماعتیں، حکومت اور عدلیہ اس معاملے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اس پر فل کورٹ بنا دیا جاتا، تو پھر بھی ہم مان لیتے کہ یہ لوگ اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں،،، ہائیکورٹ کے 6ججز اگر کہہ رہے ہیں اور اُن پر بھی سب شک کر رہے ہیں تو پھر اس ملک میں باقی کون بچتا ہے؟ اگراب کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ پورا اسلام آباد ہائیکورٹ ہی ایک مخصوص جماعت کے ججز کا ہے تو اس جماعت کے تمام عہدیدار اور کارکن اب تک جیلوں میں کیوں ہوتے؟ ویسے تو ن لیگ، پیپلزپارٹی سمیت ہر جماعت یہی کہتی رہی ہیں کہ ادارے مداخلت کر رہے ہیں،، تو پھر اس پر سب سیاسی جماعتیں مل کر کیوں نہیں بیٹھ جاتیں؟ ہم سب کے سامنے بھٹو کا کیس ہے،،، یہ وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب ملک کا بیڑہ غرق ہوا۔ پھر پانامہ کیس سب کے سامنے ہے، میاں نواز شریف خود بار بار کہتے رہے کہ مجھے پتہ ہے کہ میرے خلاف مہم کس نے چلائی اور کیوں چلوائی؟ اور اب جبکہ ایک بڑی ہائیکورٹ کے ججز کھل کر یہ بات کر رہے ہیں تو ن لیگ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کیوں کر رہی ہے؟ براہ راست احکامات جاری کیوں نہیں کر رہی؟ ایسا کرنے سے اُسے کس چیز نے روکا ہوا ہے؟ میرے خیال میں عدلیہ اور سیاسی اداروں کی کمزوری کی وجہ ہی ان اداروں کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا نہ ہونا ہے، اگر یہ لوگ ایک بات پر متفق ہو جائیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوگی عدلیہ بذات خود مضبوط ہوگی اور بغیر دبائو بہترین فیصلے کرے گی جو عوامی مفاد میں ہوں۔ اسی طرح اگر سیاسی جماعتیں بغیر دبائو کے عوامی مینڈیٹ کو قبول کرنا شروع کر دیں تو میرے خیال میں دنیا کی ایسی کوئی طاقت نہیں ہے جو انہیں ایک ادارے بننے سے روک پائے۔لیکن اس کے برعکس اگر ایک جماعت یا ایک گروہ آواز اُٹھائے گا اور دوسری جماعت یا گرو ہ اُس آواز کی مخالفت میں کھڑا ہو جائے گا تو کیا آپ نہیں سمجھتے کہ کل کو ان کی بھی باری آنی ہے۔ پھر یہ لوگ عدالتوں اور اداروں سے انصاف کے متلاشی ہوں گے مگر ’’غیب‘‘ سے آواز آئے گی کہ نہیں! ابھی انہیں مزید زدو کوب کریں یا مزید انکوائری کی ضرورت ہے۔ جب بھی نئی حکومت بنتی ہے، تو پرانی حکومت کے افراد خواہ انہوں نے کچھ کیا ہے یا نہیں،وہ جیل ہی میں جائیں گے۔ اُن پر طرح طرح کے کیسز بنیں گے۔ آپ خود دیکھ لیں کہ کون کون جیل میں نہیں گیا۔بے نظیر، زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، یوسف رضا گیلانی، بانی پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی، راجہ پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی، اسحاق ڈار ، خورشید شاہ وغیرہ سبھی کو جیل یاترہ کرنا پڑی ہے۔ یعنی جب بھی حکومت بدلتی ہے تو یہی عدالتیں استعمال ہوتی ہیں جس کی وجہ سے عدلیہ کے ادارہ ا کو کبھی مضبوط نہیں ہونے دیا گیا۔اور رہی بات اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی تو ان کی جرأت کو سلام کرنا چاہیے جنہوں نے آواز بلند کی ہے، لیکن اس پر ایک مخصوص جماعت کے ججز ہونے کا الزام لگانا میرے خیال میں اس وقت زیادتی ہے۔ گزشتہ سال اسی جماعت نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق کے خلاف جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا، یعنی پی ٹی آئی کور کمیٹی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے خود کو مقدمے کی سماعت سے فوری علیٰحدگی اور معاملہ کسی دوسرے بنچ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے قانون و انصاف کو محض ایک مذاق اور عدالت کو تماشہ بنا دیا، وہ چیف جسٹس کے منصب پر بیٹھنے کے اہل نہیں۔کور کمیٹی تحریک انصاف نے کہا کہ معاملے کو التواء میں ڈالنے کا واحد مقصد چیئرمین عمران خان سے روا رکھے جانے والے انتقام و تشدد کے سلسلے کا دوام ہے، چیف جسٹس آف پاکستان اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے اندازِ فیصلہ سازی کا نوٹس لیں۔وغیرہ ۔ پھر آپ توشہ خانہ کیسز پڑھ لیں۔ تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایک مخصوص جماعت کے ہی یہ سب ججز ہو سکتے ہیں؟ لیکن یہاں میرے خیال میں تو آپ اس جماعت کا ذکر بھی نہ کریںکیوں کہ اس وقت عدلیہ کے وقار کی بات ہو رہی ہے، ججز پر دبائو ڈالنے کے حوالے سے ہو رہی ہے،ان ججز کی فیملیز محفوظ نہیں ہیں۔لہٰذااگر اس وقت بھی کوئی ایکشن نہ لیا گیا تو پھر جیسے چل رہا ہے اس سے بھی مزید گھمبیر حالات کی توقع رکھیں۔