ہر سال دسمبر کا مہینہ ہمارے لئے تلخ یادیں لے کر آتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا المناک ترین سانحہ 16دسمبر کو رونما ہوا۔پاکستان دولخت ہو گیا اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔16دسمبر سے چند دن پہلے تک بھی ہماری حکومتیں ہمیں سبز باغ دکھا رہی تھی اور قوم کو بتایا جا رہا تھا کہ حکومت نے حالات پر قابو پا لیا ہے اور انشاء اللہ فتح ہماری ہو گی۔میڈیا کافی حد تک پابند تھا اور شاید میڈیا کے لوگ بھی حالات سے پوری طرح باخبر نہیں تھے۔ میڈیا کی آزادی کے خلاف تاویلیں دینے والے بھی کم نہیں ہیں۔لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر میڈیا کو آج والی آزادی حاصل ہوتی پرائیویٹ ٹی وی چینلز موجود ہوتے اور آج کا سوشل میڈیا موجود ہوتا تو ہم اس شرمناک شکست سے بچ سکتے تھے اگر مغربی پاکستان کے عوام کو اس بات کا ادراک ہوتا کہ فوجی حکمران اور اقتدار کے بھوکے سیاستدان کیا کھیل کھیل رہے ہیں تو مغربی پاکستان کے عوام خود حکومت کو مجبور کر دیتے کہ اقتدار اکثریتی پارٹی کے حوالے کیا جائے اگر اقتدار پانچ سال کیلئے عوامی لیگ کے حوالے کر دیا جاتا تو پاکستان کی سلامتی یقینی بنا جا سکتی تھی۔جنرل یحییٰ خان نے خود شیخ مجیب کو پاکستان کا آئندہ وزیر اعظم کہہ کر مخاطب کیا تھا اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ مکمل پاکستان کا وزیر اعظم بننے سے انکار کرتا۔وہ زیادہ سے زیادہ مغربی پاکستان کے لئے کس نقصان کا سبب بن سکتا تھا۔شاید وہ مشرقی پاکستان کی ترقی پر زیادہ توجہ دیتا اس میں کوئی برائی نہیں تھی بلکہ یہ تو مشرقی پاکستان کا حق تھا کہ اسے مغربی پاکستان کے برابر ترقی دی جائے دنیا کی تاریخ میں یہ اپنی طرز کا نیا سانحہ تھا کہ اکثریت کے حامل صوبے نے اقلیت کے حامل صوبے سے آزادی کا اعلان کیا۔ورنہ ساری دنیا میں تو اقلیت ہی آزادی کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ اگر ماضی کے آئینے میں جھانکا جائے تومغربی پاکستان کے عوام کی سمجھ بوجھ پہ رونا آتا ہے کہ کس طرح دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کو اقتدار کی رسہ کشی کی وجہ سے توڑ دیا گیا۔مغربی پاکستان کے لوگ اپنے آپ کو بنگالیوں سے برتر سمجھتے تھے امہ اور انہیں اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔یہ تخیل عام تھا کہ ہماری معاشی کمزوریوں کا ذمہ دار مشرقی پاکستان ہے۔بنگالی یہ کہتے تھے کہ انہیں اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی، یعنی ان کا خیال تھا کہ بنگالی پٹ سن کی پیداوار مغربی پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ہم انہیں طعنہ دیتے تھے کہ مشرقی پاکستان کے سائیکلون ساری ترقی کا بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔آبادی میں شبانہ روز اضافے کا موجب بھی بنگالیوں کو قرار دیا جاتا تھا کہ ان کا کام صرف مچھلی اور چاول کھانا ہے اور بچے پیدا کرنا ہے ۔مشرق اور مغرب کی علیحدگی کے بعد یہ سب تصورات ہوا میں اڑ گئے۔آج مشرقی حصے میں آبادی بھڑنے کی شرح ہماری نسبت کہیں کم ہے۔ہماری کرنسی کی شرح تبادلہ بھی بنگلہ دیشی ٹکے کی نسبت تقریباً نصف ہے اور ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بھی بنگلہ دیش سے آدھے ہیں ہمارے ذخائر تقریباً پچیس ارب ڈالر ہیں اور ان کے چوالیس ارب ڈالر۔بنگلہ دیش میں ترقی کی شرح بھی ہم سے کہیں بہتر ہے۔قانون کی حکمرانی میں بھی وہ ہم سے آگے ہیں پچھلے دنوں بنگلہ دیش میں ایک انسان کو قتل کرنے کی پاداش میں ستائیس مجرموں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا جبکہ پاکستان میں ایسی سزا کا تصور بھی محال ہے۔ایک اور ہم بات جو قابل ذکر ہے کہ کیا ہم نے اس سانحہ عظیم سے کوئی سبق سیکھا ہے۔سب سے پہلے تو ہمارے اہل قلم نے اس سانحے کو اس قابل ہی نہیں جانا کہ اس کے بارے کتابیں لکھی جائیں۔اس کا تجربہ کیا جائے اس کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔بھارت اور بنگلہ دیش میں 1971ء کی جنگ پر بیسیوں کتابیں لکھی گئیں لیکن پاکستان میں صرف چند کتابیں لکھی گئی نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ ساری دنیا نے اس جنگ کو بھارت کے نقطہ نظر سے ہی دیکھا۔حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو بھی دن کی روشنی دیکھنی نصیب نہیں ہوئی اور رپورٹ کے جو حصے عوام کے سامنے آئے وہ بھارت سے لیک کئے گئے نہ کسی سیاستدان کو سزا کا حق دار ٹھہرایا گیا نہ کسی فوجی کو۔سزا دینے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔تمام سیاسی جماعتیں اس واقعے کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھتی ہیں۔صوبائی سطح کی جماعتیں سانحہ مشرقی پاکستان کو علیحدگی کی دھمکی دینے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ایک زمانے میں پورے پاکستان کی جماعت کہلانے کی دعوے دار پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ نے تو حال ہی میں صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اس دھمکی کا برسر عام اعلان کیا اور کوئی شرم محسوس نہیں کی۔بلوچستان میں ایسی دھمکیاں روزانہ کا معمول ہے جو بھارت کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ پاکستان میں علیحدگی کی تحریکوں کی پشتہ بانی کرے۔جس سیاستدان کے ہاتھ سے اقتدار نکل جائے وہ غیر ممالک میں بسیرا کرتا ہے اور بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا حصہ بنتا ہے وطن کے ساتھ محبت اقتدار سے مشروط ہے۔نظریہ پاکستان کو بعض سیاستدانوں نے نظریہ اقتدار سے بدل دیا ہے وہ پاکستان صرف اسی صورت میں رہنا آنا چاہتے ہیں، جب وہ اور ان کا پورا خاندان اقتدار کے مزے لوٹے۔کاروبار اور جائیداد بنانے کے لئے وہ دوسرے ممالک کا انتخاب کرتے ہیں غریب کا غم کھانے کے دعوے دار اپنے بچوں کی شادیاں اس دھوم دھام سے کرتے ہیں کہ ان کی تقاریب ہفتوں اور مہینوں پر محیط ہوتی ہیں اور اربوں روپے اڑا دیے جاتے ہیں۔غریب عوام کا خیال انہیں صرف اس وقت آتا ہے ،جب انھیں ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے ،عوام بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لاکھوں روپے کے جوتے پہننے والے ان کے دکھوں کا ادراک کیسے کریں گے ،خوئے غلامی کے شکار عوام مجرم اور ملزم سیاستدانوں کی عدالتی پیشی کے دوران ان کی گاڑیوں پر گل پاشی کرتے ہیں اور پولیس کے ڈنڈے کھاتے ہیں۔ دوسرا بڑا سانحہ جو دسمبر میں سات سال پہلے رونما ہوا، وہ اے پی ایس کے بچوں کا بہیمانہ قتل تھا۔دہشت گردوں نے قوم کے بچوں کا بھی لحاظ نہیں کیا اور سینکڑوں خاندانوں کی زندگی تاریک کر دی یہ ضرور ہوا کہ اس سانحے نے پوری قوم کو اکٹھا کر دیا اور پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔بہت سے قاتل فوج کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے اور چند گرفتار ہوئے فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئیں اور دہشت گردوں کو سزائیں دی گئیں۔بیشتر دہشت گرد عدالتی عمل کے ذریعے رہا ہو گئے اور دوبارہ دہشت گرد تنظیموں کا حصہ بن گئے اور ہمارے نظام انصاف کا منہ چڑا رہے ہیں۔عدالتی اصلاحات ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئیں تاکہ قاتلوں کو فی الفور سزا دی جا سکے، جو دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔آج کے اخبار کے مطابق وفاقی وزیر انسانی حقوق نے خبر دی ہے کہ آئندہ تین ماہ میں عدالتی اصلاحات مکمل ہو جائیں گی کہ خوشی سے مر نہ جائے اگر اعتبار ہوتا۔جو حکومت ساڑھے تین سال میں کسی شعبے میں بھی اصلاحات کی داغ بیل نہیں ڈال سکی، وہ آئندہ تین ماہ میں کیا تیر مارے گی۔لیکن قوم کے پاس بھی اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ انتظار کریں اور امید بہار رکھیں۔پاکستان میں موجود سیاسی جماعتوں کا ٹریک ریکارڈ ایسا ہی ہے کہ پوری قوم حیران اور پریشان ہے کہ جائے تو جائے کہاں۔دہشت گردوں کو سزا دینے کا مطالبہ سب کرتے ہیں لیکن عملی طور پر میدان میں کوئی کھڑا نہیں ہوتا ۔