اسرائیل اور حماس کے مابین سات اکتوبر سے شروع ہونے والی لڑائی جس میں اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری کے بعد اب زمینی افواج سے بھی حملہ شروع کردیا ہے۔ اب تک اس جنگ کے نتیجے میں تقریباً آٹھ ہزار کے قریب فلسطینی شہری جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ پندرہ سو کے قریب اسرائیلی مارے گئے ہیں۔ دونوں اطراف کے جانی نقصان کے علاوہ اس جنگ کے مشرق وسطیٰ پر بھی گہرے اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔ حماس اور اسرائیل کے مابین حالیہ جنگ نے نہ صرف فلسطین اور اسرائیل تنازعہ کی سمت تبدیل کردی ہے، بلکہ پورے مشرق وسطی کی حرکیات بھی تبدیل کردی ہیں۔ اس جنگ نے ایک طرف خطے میں امریکی حکمت عملی کو تبدیل کردیا ہے جبکہ عرب ملکوں اور ایران کو ایک مشکل پوزیشن میں ڈال دیا ہے اور دوسری طرف چین اور روس کے لیے مشرق وسطیٰ میں زیادہ سے زیادہ دخل اندازی کے دروازے کھول دیے ہیں۔ جہاں تک اسرائیلی جانی نقصان کی تعداد کا تعلق ہے تو میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل اور غزہ کے درمیان جاری لڑائی کے دوران اسرائیلی جانوں کا جتنا نقصان ہوا ہے اسرائیل کو اتنا جانی تقصان 1967 اور 1973 کی جنگوں سمیت کسی بھی جنگ میں نہیں اٹھانا پڑا۔ اس تناظر میں غزہ اور اسرائیل کی جنگ آنے والے دنوں میں اسرائیلی پالیسی سازوں اور اسرائیلی عوام پر گہرے نقوش چھوڑے گی۔ حماس کے اس حملے کے بعد اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا خواب چکنا چور ہوگیا ہے اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں زبردستی قائم ہونے والی یہودی بستیوں کے مکینوں پر اپنے غیر محفوظ ہونے کے نفسیاتی اثرات دیر تک رہیں گے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اسرائیل کی دائین بازو کی سیاسی پارٹیاں ان کے ان جزبات کو آنے والے انتخابات میں اپنے حمایت میں استعمال کریں گی۔ جہاں تک مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی حکمت عملی کا تعلق ہے تو یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ بائیڈن کی قیادت میں ڈیموکریٹس کے اقتدار میں آنے کے بعد گزشتہ تین سالوں میں بائیڈن انتظامیہ نے اپنی ‘‘ Asia Pivot’’ کی پالیسی کے تحت مشرق وسطی میں اپنی شمولیت کو محدود کرنے اور چین پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس پالیسی کے تحت، امریکہ نے سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں جاری تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کی تاکہ خطے میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کو کم کیا جاسکے۔ امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کا ایک اور اہم جزو ایک معاشی راہداری قائم کرنے کا ایک منصوبہ ہے جو ہندوستان ، مشرق وسطی اور یورپ کو جوڑ دے گا۔ یہ منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے جواب میں امریکی حمایت یافتہ پروجیکٹ ہے۔ اس مجوزہ منصوبے کے دو حصے ہیں: ایک مشرقی راہداری، جو ہندوستان کو عرب خلیجی ریاستوں سے مربوط کرے گی ، اور ایک شمالی راہداری، جو خلیجی ریاستوں کو اردن اور اسرائیل کے راستے یورپ سے ملائے گی۔ حماس اور اسرائیل کی جنگ نے فی الحال ان منصوبوں پر بڑھتی ہوئی پیشرفت کو روک دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے دور میں ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل اور عرب ملکوں کے مابین شروع ہونے والے معاہدوں پر مزید پیش رفت رک گئی ہے جس کا فوری اثر یہ ہوا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات کے قیام کے لیے شروع کیا گیا عمل منجمد کردیا گیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ کا دوسرا اثر یہ ہوا ہے کہ ایران کے ساتھ تناؤ کو دور کرنے کی امریکی کوششیں بھی فی الحال ختم ہوگئی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ صرف ایک ماہ قبل ، دونوں ممالک نے قیدی تبادلہ اور 6 بلین ڈالر مالیت کے منجمد ایرانی اثاثوں کی رہائی پر معاہدہ کیا تھا اور یہ امید کی جارہی تھی کہ اس معاہدے کے بعد ایران، شام اور عراق میں اپنے حمایت یافتہ عناصر کو امریکی افواج کے خلاف مزید حملے کرنے سے روکنے کے لیے قائل کرے گا۔ اسرائیل اور حماس کے مابین جاری حالیہ جنگ کا ایک اور اہم اثر یہ ہوا ہے کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ کے خطے میں اپنی فوجوں کی موجودگی کم کرنے کی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے مشرقی بحیرہ روم میں ایک ہوائی جہاز کیریئر تعینات کیا ہے، جبکہ ایک اور خلیج میں بھیجا گیا ہے۔ یہ دونوں جہاز کیریئر مل کر، 100 سے زیادہ طیارے، حملے کی صلاحیتوں کے ساتھ کروزر ، اور آبدوزوں کے ساتھ ٹامہاک میزائلوں سے لیس ہیں۔ امریکہ کے بقول اس کی ان افواج کی موجودگی کا مقصد کسی تیسرے فریق کو اسرائیل کے خلاف ایک اور محاذ کھولنے سے روکنا ہے۔ حماس کے حملے اور غزہ کے خلاف اسرائیلی جنگ نے عرب ملکوں کی حکومتوں کو مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ ایک طرف، امریکہ اپنے عرب اتحادیوں پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ حماس کی مذمت کریں اور اس کی کسی بھی قسم کی مدد سے اجتناب کریں۔ دوسری طرف، اسرائیل کے فلسطینی شہری آبادیوں حتیٰ کہ ہسپتالوں پر اندھا دھند حملوں نے عرب عوام کو ناراض کردیا ہے اور عرب حکومتوں پر عوام کے دباؤ کے سامنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کارروائی کریں۔ 24 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس کے دوران غزہ کی صورتحال پر بحث کرنے کے لئے مصر ، اردن اور سعودی عرب کے وزراء خارجہ ( یہ تمام ممالک امریکی اتحادیوں ہیں) نے اسرائیل کی سخت مذمت کی اور فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا جبکہ ایک دن بعد ، متحدہ عرب امارات نے چین اور روس کے ساتھ مل کر امریکہ کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کو ویٹو کیا جس نے لڑائی کے خاتمے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ ان تمام عوامل سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ پر اپنے مہلک حملے جاری رکھتا ہے اور جلد جنگ بندی کا معاہدہ نہیں ہوتا تو عرب ممالک کی حکومتوں کے لیے اپنے عوام کا دباؤ برداشت کرنا مشکل ہوجائے گا جس کے نتیجے میں وہ اسرائیل کے خلاف ایسے اقدامات کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے امریکہ اپنے اتحادی عرب ممالک سے ناراض ہوجائے۔ اس صورتحال میں مشرق وسطیٰ عدم استحکام کی ایک نئی لہر کا شکار ہوسکتا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے مابین جلد جنگ بندی نہ ہونے کی صورت میں مختلف وجوہات کی بنائ￿ پر ایران بھی ایک مشکل پوزیشن میں ہے۔ ایرانی قیادت نے حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کی تعریف کی جبکہ اس میں کسی بھی طرح کی حصہ داری سے انکار کیا۔ ایران تمام صورتحال کا احتیاط سے جائزہ لے رہا ہے کیونکہ وہ حماس کی حمایت بھی کرتا ہے اور حماس کے وجود کی بقاء کا خواہش مند ہے تاہم وہ اسرائیل یا اس کے حلیف امریکہ کے ساتھ براہِ راست جنگ میں ملوث ہونے سے بچنا چاہتا ہے۔ ان نکات کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے مابین ہونے والی اس جنگ کے مشرق وسطیٰ پر اہم اثرات مرتب ہوں گے۔