ایک فلسطینی کیمپ میں جنم لینے والا کسی ظلم کسی ناانصافی کو کیسے مان لے گا۔اسماعیل ہانیہ ایک فلسطینی کیمپ میں 1962 میں پیدا ہوا۔اسلامک یونیورسڑی غزہ سے تعلیم حاصل کی۔اس نے دوحہ میں بیٹھ کر حماس کا غزہ سے متصل غیر قانونی آبادیوں پر سات اکتوبر کا حملہ اسی طرح دیکھا جس طرح وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر بارک اوبامہ نے ایبٹ آباد میں اسامہ کی موت کا ڈرامہ دیکھا تھا۔ اس کی یہی ہمت اور جرات حماس کا اب قومی نشان ہے۔غزہ ایک چھوٹی سی آبادی ہے اور چاروں طرف سے ایک خوفناک فوج میں گھری ہوئی ہے۔ایک اسلامی ملک جس کی واحد سرحد غزہ سے ملتی ہے اس نے وہ سرحد بھی مکمل بند کر رکھی ہے۔ان حالات میں اس کا اسرائیل پر ناقابل یقین اور کامیاب حملہ کرنا سب کے لیے حیران کن ہے۔وہ برادر اسلامی ملک جو مشرق وسطی کا نیا نقشہ ترتیب دینے میں مگن تھے اور حماس کیا سارے فلسطین کو نظر انداز کر چکے تھے حماس نے اسے دنیا کا دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔حماس کا واحد موقف یہ ہے کہ وہ اس خطے کے اہم ترین کھلاڑی ہے فلسطین کا مسئلہ اس کی شمولیت کے بغیر حل نہیں ہونے والا۔وہ حماس جس کے پاس نہ فارن ریزروز ہیں نہ باقاعدہ فوج ہے خطے کی اس طاقت کے سامنے کھڑی ہے جس کے سامنے سارے زیر ہو چکے ہیں یا کر دیے گئے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کے ہر آدمی فوجی ٹریننگ لے چکا ہے خواہ وہ دورز ہے یا اسرائیلی خواہ وہ عورت ہے یا مرد خواہ وہ بوڑھا ہے یا بچہ خواہ وہ ڈاکٹر ہے یا ہوٹل کا نانبائی ہر کوئی مکمل فوجی ہے یہی حماس کا بھی دفاع ہے جب کہا جاتا ہے کہ اس نے سات اکتوبر کو سول آبادی کو مارا اور اغوا کیا تو جواب ملتا ہے کہ وہ غزہ کے ہی پرانے علاقے میں بنی یہودی آبادیوں میں رہنے والے مکمل فوجی ہیں۔ باقاعدہ اسلحہ سے لیس ہیں۔ وہ غزہ پر فائرنگ کرتے ہیں اور قتل و غارت میں ملوث ہیں۔اسی پر بس نہیں جسد ِعرب میں پھیلتے اس کینسر میں 1948 سے ہر اسرائیلی پر تا حیات فوجی خدمات دینے پر قانونی پابندی ہے۔اسرائیل ایک ہائی ٹیک فوجی صلاحیتوں سے مالا مال ہے نیوکلر ہتھیاروں سے لیس ہے ایک معاشی طاقت ہے۔ اسرائیل کی نوے لاکھ آبادی میں اٹھارہ لاکھ مسلمان ہیں۔ اسی فوج کی روزانہ کی مسلم کش کارروائیوں کی وجہ سے صرف امریکی معاشرے میں نہیں خود اسرائیل میں یہودی تقسیم ہیں بی بی (نیتن یاہو کا نک نیم) کا رویہ اور مغرب کا موقف ایک ہے اس کا یہودیوں کے حقوق سے تعلق نہیں اس کا اسلام سے ازلی مخالفت اور مخاصمت کا ہے جسے اسلامو فوبیا کہا گیا ہے۔اسرائیل کی سیاست بھی پولورازڈ ہو چکی بالکل اسی طرح جیسے امریکہ میں ہے اور جیسے پاکستان میں ہے۔جیسے سابق امریکی صدر ٹرمپ لبنان کی حزب اللہ کے گن گا رہا ہے اور بی بی کو نشانے پر رکھا ہوا ہے اور وائٹ ہاؤس ٹرمپ کے بیانات کے مقابلے میں صفائیاں دے رہا ہے بالکل اسی طرح جیسے یہاں پاکستان میں معاشرہ تقسیم ہو چکا ہے ہر کوئی خواہ وہ سیاسی جماعت ہو یا معاشرے کا کوئی دوسرا گروہ کا ہو وہ اپنے مخالف کا نام سننا تو کجا نام لینا بھی گناہ سمجھتا ہے۔اسرائیل کا لیفٹ اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہے کہان کا ذاتی رویہ ہی حماس کو یہاں تک لے آیا ہے کہ اردو کے محاورے کے مطابق تنگ آمد بجنگ آمد تک لانے میں اسرائیل کے وزیر اعظم کا بنیادی کردار ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق فلسطین یعنی غزہ کے جنوب میں واقع بحیرہ روم کے بیس ناٹیکل میل تک پانی کی بین الاقوامی سرحد غزہ والوں کی ہے۔یعنی اس علاقے تک وہ ماہی گیری کرنے کے مجاز ہیں۔بی بی نے پہلے غزہ کو چھ اور اب تین ناٹیکل تک محدود کر دیا ہے۔نو ٹاٹیکل میل پر مچھلیاں دستیاب ہو سکتی ہیں یعنی غزہ کے لوگوں کی روزی روٹی کا یہ آسرا بھی ان سے زبردستی چھین لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے انصاف پسندوں حتٰی کہ امریکہ کے یہودیوں کا موقف ہے کہ ہمارے نام پر حماس اور غزہ پر مظالم نہ کریں۔ 1967 تک غزہ کا علاقہ مصر کے پاس تھا تب غزہ کے لوگ مصر میں کام بھی کرتے تھے تعلیم بھی حاصل کرتے تھے اسی جنگ میں یہ علاقہ اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا۔عام فلسطینی کی حالت یہ ہو گئی کہ غزہ کے آس پاس یہودی آبادیوں میں یہی فلسطینی چھوٹا موٹا کام کر کے اپنے دن گزارنے پر مجبور تھے۔یہی تکلیف حماس کے جنم کا موجب بنی۔ مبارک تجھ کو تیری کہکشائیں مجھے تو اک ستارا چاہیے تھا اسرائیل کبھی کسی بات چیت اور فلسطین کے مطالبے پر رعایت دینے کو تیار نہیں ہوا بلکہ اس کا اہداف ہی اور ہیں۔اسرائیل کے جھنڈے میں صہیونی تارے کو دو نیلی پٹیوں (مصر کے دریائے نیل اور ترکیے کے دریائے فرات) کے درمیان رکھا گیا ہے اور یہ گریٹر اسرائیل کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل اب اس حملے کو ہولو کاسٹ سے تعبیر کر رہا ہے۔ یہی تو 2014ء حماس کے خالد مشعل نے کہا تھا۔اب اسرائیلی کہہ رہے ہیں۔یہی دکھ انہیں کھائے جا رہا ہے۔حماس نے اپنی حفاظت کے لیے جو سرنگیں یا غار بنائے ہیں جو انہیں مصر تک رسائی بھی دیتے ہیں کے متعلق امریکی میڈیا چیخ چیخ کر حساب لگا لگا کر بتاتا ہے کہ ایک ایک سرنگ کے بدلے 86 گھر سات مساجد چھ سکول اور انیس ہسپتال بنا سکتے تھے۔حماس نے اس قسم کی بتیس سرنگیں بنا رکھی ہیں۔جس کے پاس نہ آرمی رکجنے کی اجازت ہے نہ اسلحہ فیکٹری ہے نہ اسلحہ سپلائی ہے یہی سرنگیں ان کی بیرکیں اور ہیڈکوارٹر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حماس نے غزہ کو انسانی جیل بنایا ہوا ہے۔ اگر حماس نے غزہ کو جیل بنایا ہوا ہے تو اسرائیل بھی تو سارا اسلحہ ڈپو ہی ہے۔