سپریم کورٹ کا فیصلہ آ گیا۔اس فیصلے کے مضمرات کیا ہوں گے اس پر عملدرآمد کتنی سبک رفتاری سے ہو گا اس فیصلے کے نتیجے میں آنے والے وقت میں حکومت کی حکمت عملی کیا ہو گی۔کیا یہ فیصلہ عمران خان کی کامیابی ہے یا حکومت اس فیصلے کو اپنے موقف کی کامیابی قرار دے گی۔لیکن ابھی تو پی ٹی آئی کے کیمپ میں شادیانے بجائے جا رہے ہیں یہ فیصلہ 3-2کی اکثریت سے سنایا گیا اس میں دو ججز نے اختلاف کیا اور اپنے اختلافی نوٹ میں انہوں نے بڑی وضاحت سے لکھا کہ در حقیقت یہ معاملہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا یہ معاملہ لاہور اور پشاور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے اس لئے ہمیں ان کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے اہم رہنما فواد چودھری نے کہا کہ درحقیقت یہ 5-0کا فیصلہ ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ متفقہ ہے جبکہ وزیر قانون اعظم تارڑ کا موقف ہے کہ یہ فیصلہ 4-3کا ہے تارڑ صاحب ان ججز کی رائے کو بھی اس فیصلے میں شامل کر رہے ہیں جو پہلے 9رکنی بنچ کا حصہ ضرور تھے لیکن بعد میں بننے والے 5رکنی بنچ میں شامل نہیں تھے اس طرح حکومت کی طرف سے ایک نیا تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ سپریم کورٹ کا موقف یہ ہے کہ یہ فیصلہ 3-2کی اکثریتی رائے سے ہوا ہے عمومی طور پر دیکھا جائے یا قانونی طور پر میرا خیال ہے کہ فیصلہ آ گیا ہے یہ 5رکنی بنچ نے سنایا ہے اس لئے اس میں اعداد و شمار کا تنازعہ پیدا کرنا درست نہیں اور بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ یہ 3-2کا فیصلہ ہے اور اسی فیصلے کو اسی طرح تسلیم کرنا پڑے گا۔خواہ کوئی بھی اس فیصلے کے خلاف نئی توجیہات اور تشریحات پیش کرے ،اس سے ایک کمزوری خود آپ میں یہ ظاہر ہو گی کہ آپ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔اس سے آپ کا قد کم ہو گا سیاسی ساکھ متاثر ہو گی اس لئے کان ادھر سے پکڑیں یا دوسری طرف سے آپ کو فیصلے کو ماننا پڑے گا جس طرح 19صفحات میں یہ درج ہے یہاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب یہ مقدمہ شروع ہوا تھا تو اس وقت پیپلز پارٹی اور بار کونسل نے سپریم کورٹ سے مشترکہ طور پر استدعا کی تھی کہ فل کورٹ تشکیل دی جائے جس میں اس ابہام کے متعلق مشترکہ دانش سے عدالت فیصلہ کرے کہ ایسی صورتحال میں ان نکات کی تشریح کسی طور پر ہو جس پر آئین واضح نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرتی تو چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس اپنا فیصلہ منوانے اور اس پر عملدرآمد کے لئے کیا آپشن اور طریقہ کار ہو گا۔اس پر فواد چودھری کہتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہو گا تو پھر وزیر اعظم کو گھر جانا پڑے گا جس طرح پہلے بھی دو وزرائے اعظم کو گھر بھیج دیا گیا تھا لطیف سعید کھوسہ کہتے ہیں کہ اس پر توہین عدالت لگے گی جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ نائیک صاحب نے عدالت میں اس سے مختلف دلائل دیے جس طرح کھوسہ صاحب کہہ رہے ہیں۔ دونوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے سردار لطیف کھوسہ کا خیال ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں بلکہ یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اداروں اور متعلقہ حکام کا کام ہے۔شائق عثمانی صاحب کا استدلال یہ ہے کہ طریقہ کار یہ ہے کہ جو بنچ کیس سنتا ہے اس میں موجودہ اکثریتی ججوں کا فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہوتا ہے جس بنچ نے یہ کیس سنا وہ 5رکنی بنچ تھا اس میں سے 3نے یہ فیصلہ دیا اور دو نے اس کیس کو سننے کے سوال ہی سوالیہ نشان لگا دیا شائق عثمانی کا خیال ہے کہ یہ چیف جسٹس کا صوابدیدی اختیار ہے وہ صحیح ہے یا غلط لیکن بنچ بنانا انہی کا اختیار ہے اس لئے یہ 5رکنی بنچ ہی ہو گا یہاں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ دو معزز جج صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ وہ اپنے ان معزز جج صاحبان سے اتفاق کرتے ہیں جنہوں نے 23فروری کو 9رکنی بنچ میں اس کیس کو سننے کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا تھا لیکن جسٹس شائق عثمانی اس بات پر مضبوط موقف رکھتے ہیں کہ یہ فیصلہ 5رکنی بنچ کا مانا جائے گا ۔اس میں یہ بات بھی بیکار نظر آتی ہے کہ حکومت اس حوالے سے ریویو میں جائے گی۔کیونکہ اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ہاں یہ ضرور نظر آ رہا ہے کہ عدلیہ میں اختلافات کی لکیریں نظر آ رہی ہیں ۔ یہاں یہ بات بڑی احتیاط سے کی جا سکتی ہے کہ وہ فورم جس پر سب کو اعتماد ہونا چاہیے جو ہر تنازعے کے متعلق ایک غیر جانبدارانہ اور درست فیصلہ کرانے کی صلاحیت رکھتا ہو اسے اس بات کا خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ انصاف کی فراہمی کا سب سے موثر فورم اپنی صفوں میں ایسی پیشہ وارانہ ٹرانسپرنسی ضرور برقرار رکھے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ پھر برادر جج صاحبان اپنے اپنے موقف میں پے درپے اختلاف کریں الیکشن 90دن میں ہی ہوتے ہیں یا نہیں۔عدلیہ اور ایگزیکٹو کی اس کشمکش کا کیا نتیجہ نکلتا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ جب تک نیچے سے اوپر تک پاکستان کا عدالتی نظام درست نہیں ہوتا احتساب کا عمل بھی اس طرح ہی بے مقصد اور لاحاصل رہے گا کیونکہ کوئی ملک اور کوئی معاشرہ انصاف کے بغیر نہ پھل پھول سکتا ہے نہ آگے بڑھ سکتا ہے ۔جسٹس سعید الزماں صدیقی نے ایک بار مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے عدالتی نظام میںکمزوریاں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔آخر کوئی سوچتا ہے کہ یہ رزق کی فراوانی کہاں سے آتی ہے یہ وسیع تر وسائل کس جگہ سے آتے ہیں ،یہ من و سلویٰ کیونکہ اترتا ہے ،وہ کہنے لگے کبھی کسی نے اس معاملے پر تحقیق کی کبھی کسی نے اس پر غورو فکر کی زحمت گوارا کی اس لئے یہ بات لکھ لو کہ جب تک پاکستان کا عدالتی نظام درست نہیں ہو گا، یہ ملک نہیں چل سکتا ،وہ جذباتی ہو گئے کہنے لگے منصف کو تو خدا کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے جج تو وہ ہو جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو جس کے عمل اور گفتار میں تضاد نہ ہو۔میں نے معزز جج سے پوچھا آپ تو چیف جسٹس رہ چکے ہیں آپ تو ڈنڈا اٹھا سکتے تھے، اصلاحات کر سکتے تھے، سعید الزماں صدیقی اس وقت دنیا میں نہیں لیکن میرے سوال پر وہ بے بسی کے انداز میں صرف مسکرا دیے۔