کسی کی نیند اڑی اور کسی کے خواب گئے سفینے سارے اچانک ہی زیر آب گئے ہمیں زمیں کی کشش نے کچھ اس طرح کھینچا ہمارے ہاتھ سے مہتاب و آفتاب گئے کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حالات بالکل ہی کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں کہ انسان کی بس ہو جاتی ہے تو پھر بس۔ قارئین کرام یہ تو جانتے ہیں کہ حباب کی اوقات ہی کیا ہوتی ذرا سی دیر کو ہوا اسے لئے پھرتی ہے پھر میر تو میر ہیں: ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے لیکن خدا جانتا ہے کہ اس حباب صفت انسان نے کیا کیا طوفان نہیں اٹھائے اور کبھی ان طوفانوں کے سامنے خود ہی ڈٹ گیا۔ حالات پر بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ نازک ہے بہت کام۔وہی جو میر نے کہا تھا۔ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا۔ اور دوسری طرف انیس بھی یاد آتے ہیں کہ بات کرنے میں یہ بھی ایک احتمال ہے: خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو بہرحال سیاست کی زمین گرم ہے اور دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ قومی اسمبلی میں قرار داد پیش ہو چکی کہ حکومت تین رکنی بنچ کے فیصلے پر عمل نہ کرے یہ اخبار کی شہ سرخی بھی ہے۔ دگرگوں حالات دشمن کو شہ دیتے ہیں یا موقع دیتے ہیں کہ وہ کوئی حرکت کر سکے۔میری تو دعا ہے کہ خدا کرے کوئی راستہ نکل آئے لگتا ایسے ہی ہے کہ معاملہ فل کورٹ کی طرف چلا جائے اس سے آگے تو پھر کھائی ہے۔ خدا رحم کرے۔اب ہم اپنے مضمون کی طرف آتے ہیں کہ ہم نے رمضان شریف کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ الحمد للہ تراویح میں بیس سپارے مکمل ہو چکے ہیں۔احوال سے پہلے مجھے ایک دلچسپ واقعہ کا تذکرہ کرتا ہے یہ ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے کہ الجزائر کے ایک قاری ولید نماز تراویح پڑھا رہے تھے کہ ایک پیاری سی بلی ان کے پاس نظر آئی جب وہ تلاوت فرما رہے تھے تو وہ بلی چھلانگ لگا کر ان کے کندھے پر آ گئی۔قاری صاحب اسی سکون اور اطمینان سے تلاوت فرماتے رہے بلی کو سہلایا تو وہ ان کے کاندھوں پر چڑھ کر اپنا منہ ان کے رخسار کے ساتھ لگاتی رہی یہ نہایت خوبصورت اور ایمان افروز منظر تھا۔اس کے بعد بلی نیچے اتر گئی اس منظر کو دنیا بھر میں دیکھا گیا اور تو اور بلی پر بھی پروگرام آ گئے کہ بلی پانی میں منہ ڈال جائے تو وہ پلید نہیں ہوتا ۔حضرت ابو ہریرہؓ کا تو نام ہی اسی لئے پڑا کہ وہ بلیوں سے پیار کرتے تھے۔ابو ہریرہ کا مطلب ہے بلیوں کا باپ۔ اس سے آگے کی بات کرتے ہیں جو اور بھی زیادہ دلچسپ ہے میں جس مسجد میں گزشتہ کئی سالوں سے تراویح پڑھ رہا ہوں اس کا نام حسان بن ثابت مسجد ہے۔ظاہر شاعر رسول کے نام پر مسجد ایک شاعر کو تو زیادہ اچھی لگے گی۔ وہاں تراویح پڑھانے والے مولانا قاری حبیب اللہ کو اللہ نے الحان دائودی عطا کیا ہے وہ باقاعدہ حدیث کے استاد ہیں اور مفسر قرآن ہیں امسال تو میں نے تراویح کے بعد ان کے درس میں بیٹھنا شروع کیا کہ جو وہ تراویح میں پڑھاتے ہیں بعد میں پون گھنٹہ اس پر بات کرتے ہیں۔بہت کچھ ملا شکر الحمد للہ مگر جب سورۃ حج کا تذکرہ آیا تو انہوں نے ایک واقعہ سنا دیا میں نے سوچا کہ آپ کے ساتھ شیئر کروں۔ مولانا حبیب اللہ صاحب حج کا تذکرہ کرتے ہوئے سامعین سے کہنے لگے کہ آپ خدا سے لگائو لگائیں کیفیت پیدا کریں اللہ مسبب الاسباب ہے وہ کوئی ایسا بندوبست کرے کہ آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا: میری سوچوں کا بھی محور وہی ذات کہ جو جہاں ہوتے نہیں اسباب‘ بنا دیتی ہے وہ بتانے لگے کہ 2008ء کی بات ہے کہ وہ راوی بلاک کی ایک مسجد میں تراویح پڑھاتے تھے تو کرکٹ کے معروف امپائر علیم ڈار صاحب ان کے پیچھے قرآن پاک سنتے تھے۔پھر کہنے لگے کہ ویسے تو وہ آٹھ تراویح پڑھ کر چلے جاتے تھے مگر ایک روز وہ بیس تراویح پڑھ کر ایک طرف بیٹھ گئے میں فارغ ہوا تو وہ میرے پاس آئے اس سے پہلے حبیب اللہ صاحب نے بتایا کہ اس سے پہلی رات میں سورۃ پڑھتے ہوئے ایک کیفیت میں چلا گیا اور اللہ سے لو لگائی کہ مولا کوئی سبب بن جائے تو اسی دن بھی سورۃ حج تلاوت کی تھی ۔ اسی رات کی بات ہے کہ علیم ڈار صاحب نے انہیں کہا آپ کو میں نے حج کروانا ہے آپ تیار ہو جائیں۔پھر انہوں نے ہی پاسپورٹ وغیرہ بنوانے میں مدد کی اور یوں مولانا حبیب اللہ صاحب فریضہ حج سے بہرہ مند ہوئے۔ میرے پیارے قارئین! اب ایک اور میرا ذاتی مشاہدہ یا واقعہ بھی آپ سن لیں کہ جب میں عمرہ کرنے گیا تو اکیلا تھا۔ حج میں نے اپنی بیگم کے ساتھ 2019ء میں کیا۔ عمرہ پہلے کیا تھا میرا روم میٹ ایک سکول ٹیچر تھا وہ روتا بہت تھا اور نعت پڑھنے کا شوق تھا وہ شرطے سے ڈرتا کہ کہیں روک نہ دے۔میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر اسے کہتا کہ سنائو نعت۔ ایک دن وہ بے اختیار اپنے بارے میں بتانے لگا شاہ جی میں تو ایک معمولی ٹیچر ہوں میرے پاس تو کچھ بھی نہیں بس میں اپنے سکول میں جب بھی کلاس پڑھا کر واپس ایک درخت کے نیچے آ کر بیٹھتا تو آسمان کی طرف دیکھ کر خدا کیا میں بھی عمرہ کر سکتا ہوں۔یہ میرا معمول تھا ایک روز ایسے ہی کلاس پڑھا کرواپس وہاں آ کر بیٹھا تو ایک شخص آیا جو میرے لئے بالکل اجنبی تھا کہنے لگا عمرہ کرے گا۔میں ہکا بکا اسے دیکھتا رہ گیا۔اس نے کہا اپنی تصویریں لے کر آنا۔گویا سب کچھ اس نے اہتمام کیا اور میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں اس نے پھر رونا شروع کر دیا۔میں سوچتا ہی رہ گیا کہ مجھے اپنے عمرے کا تو معلوم نہیں مگر اس کے عمرے کا یقین ہو گیا کہ مقبول ہے اور اب میں سوچتا ہوں کہ یقینا اس شخص کے مصاحبت کا ثمر مجھے بھی ملے گا اس واقعہ کو میں کبھی نہیں بھولا وہ عمرہ بہت اچھا رہا تھا میں معروف شاعر آصف شفیع اور اس کے دوستوں کے ساتھ غار حرا بھی گیا اور غار ثور بھی گیا۔اس دعا کے ساتھ اجازت کہ اللہ ہم سب کو اس حاضری سے فیض یاب کرے۔آمین۔