اگر عمارت کی بنیاد ہی ٹیڑھی پڑ جائے تو اس کی سلامتی مخدوش ہی رہتی ہے۔ کوئی چارہ گری کرے بھی تو کیا۔ جب ہی حل ہی تعمیر ِنو ہو تو اصلاحات وقت اور پیسے ، دونوں کا ضیاع ہیں۔ ہمیں پتن ترقیاتی تنظیم کی گھنٹہ بھر طویل پریس کانفرنس میں بیٹھے یہی خیال ستاتا رہا۔ اس تنظیم کے سربراہ ،سرورباری خیبر پختونخوا میں حال ہی میں منعقد کیے جانے والے سترہ ضلعوں کے مقامی انتخابات کے پہلے مرحلے کا تجزیہ دے رہے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ سیاسی پارٹیاں عوام کے ہاتھوں پٹ گئی تھیں۔ایک تو لوگوں نے پولنگ بوتھز کا رخ کم کیا ، دوسرے ان کی زیادہ ترجیح (تریسٹھ فیصد) آزاد امیدوار تھے۔ پتن نے انتخابات کی نگرانی نہیںکی تھی ، بلکہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر آویزاں فارم اکیس کا تجزیہ کیا تھا۔اس فارم پر درج معلومات کی روشنی میں ہی فیصلہ ہوا تھا کہ کون جیتا ، کون ہارا۔ کس پارٹی نے کہاں امیدوار کھڑا کیا اور کہاں نہیں۔ مزدور،کسان ، خواتین کی نشستوںکی صورتحال کیا رہی۔ مزے کی بات یہ رہی کہ متعدد اضلاع میں حکمران پارٹی تک کو امیدوار نہ مل پائے۔ لب لباب یہ کہ سیاسی پارٹیوں کی جڑیں عوام میں نہیں ہیں۔ سیاسی پارٹیوں پر براجمان مافیا کو نہ تو عوام کی بے اختیاری کی فکر ہے اور نہ ہی مقامی حکومتوں سے سروکار اور مطلب۔ تبھی تو انہوں نے چھوٹتے ہی ، ان کا گلا دبایا دیا تھا ، سپریم کورٹ کے حکم پر برسوں بعد انتخابات کرائے بھی تو ایک لولا لنگڑا نظام ہی وجود میں آسکا۔ ساتھ ہی وہ الیکشن کمیشن کی خبر لینا نہ بھولے۔ انہوں نے چھوٹتے ہی جوزف سٹالن کا مقولہ دہرایا کہ یہ اہم نہیں کو لوگ ووٹ ڈالتے ہیں بلکہ یہ کہ انکی گنتی کون کرتا ہے۔ اعداو شمار ، گراف اور ڈائیگرام کے ذریعے انہوں نے ثابت کیا کہ جن لوگوں نے نتائج ترتیب دیے تھے یا تو انکی تربیت صحیح نہیں ہوئی تھی یا پھر وہ کسی مجبوری کے عالم میں تھے کہ سنگین غلطیوں کے ارتکاب کرڈالا۔ ہارے ہوئے لوگوں نے کتنے ووٹ لیے فارم کے متعلقہ خانے میں درج ہو ، مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد سے زیادہ ظاہر ہویا پھر خواتین کے لیے مخصوص سیٹ پر 'گل خان' لکھا ہو تو الیکشن کی شفافیت حیثیت بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔ جن افسران نے نتائج پر دستخط کیے انکا نام اور عہدہ نامعلوم رکھا گیاہے۔ تجویز سرور باری نے یہ دی کہ ایک تو الیکشن کمیشن اپنی غلطی تسلیم کرے اور بتائے کہ کیوں آئندہ اس غلطی کا ارتکاب آئندہ نہیں ہوگا ،دوسرے ، جو افراد غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں سزادی دی جائے اور بلیک لسٹ بھی کیا جائے۔ ایسے لوگوں میں محکمہ تعلیم، محکمہ جنگلات ، شماریات اور یونیورسٹیوں کے اعلی عہدیداران شامل ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ، جنہیں وہ بہت پہلے سے ہی نام نہاد کہتے چلے آرہے ہیں، ان پرانہوں نے طنز کیا کہ ان کی نسبت مذہبی پارٹیوں نے اپنے امیدوار کھڑے کرتے ہوئے صنفی مساوات کا زیادہ خیال رکھا تھا۔ مجموعی طور پر ان کا مشورہ یہ تھا کہ سیاسی پارٹیاں مقامی طور پر اپنے آپ کو منظم کریں اور جمہوری ڈھانچے کھڑے کریں۔ اسکا مطلب ہم نے یہ لیا کہ اگر سیاست میں زندہ رہنا ہے تو مقامی حکومتوں کا نظام حاضر ہے، اس سے آنکھیں چرانے اور اس کی مخالفت کی بجائے سیاسی پارٹیاں اس سے جڑ جائیں تو بہتر ہے۔ اقتدار کی سیڑھیوں پر چڑھنے کے لیے انہیں مقامی سطح پر منظم ہونا ہوگا۔ جمہوریت کے مزے لینے کے لیے انہیں اپنے اندر جمہوریت لانا پڑے گی۔ انہوں نے سیاسی پارٹیوں کی مقامی حکومتوں میں عد م دلچسپی کے تنا ظر میں اس امکان کا 'خدشہ ' بھی ظاہر کیا کہ جس طرح عدلیہ اس نظام میں دلچسپی لے رہی ہے، مقامی انتخابات کا تسلسل کسی نئی پارٹی کے قیام کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ پارٹی کیسے وجود میں آئیگی، اس سوال کا جواب ان کے پاس یہ تھا کہ آزاد امیدواران مل کر اسے بناسکتے ہیں بشرطیکہ سول سوسائٹی ، مزدور یونین اور خواتین کی تنظیمیں سنجیدگی سے اس پہلو پر سوچیں اور میدان عمل میں آئیں۔ سوالات و جوابات کا سلسلہ شروع ہوا تو ہم نے خاموشی ہی مناسب سمجھی۔ تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو جو معاملہ سامنے آیا ہے وہ شفافیت سے کوسوں دور ہے۔ دھاندلی کا لفظ سرور باری نے اگر استعمال نہیں کیا تھا تو انہیں شہ دینا مناسب نہیں تھا۔ ویسے بھی سوال کرنے کا استحقاق ہم رپورٹرز کو دیتے ہیں۔ ایک تو ہم ان کے لیے مخصوص نشتوں پر دھڑلے سے براجمان ہوگئے تھے، دوسرے بنیادی نوعیت کے سوالات کرکے مشکوک نہیں ہونا چاہتے تھے۔ انتخابات تاخیر سے ہوئے اور ان کے انعقاد اور تفصیلی نتائج میں پس وپیش سامنے کی بات ہے۔ معاملہ آگے بڑھا تو نوبت نتائج کے چیلنج ہونے سے نکلتی خیبرپختونخواہ میں مقامی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے مستقبل اور پنجاب کے مقامی انتخابات تک جاپہنچتی۔ کیا الیکشن کمیشن ایک ذمہ دار ادارہ ہے کہ مناسب تیاری کے بغیر کسی قسم کے انتخابات کرائے؟جتنا کہ ہم سرور باری کی منطقی طرز فکر کے بارے میں جانتے اور سچ کے اظہار میں بے باقی کے قدردان ہیں۔ اتنا ہی ہمیں پتہ ہے کہ جمہوریت کے تسسلسل کو وہ کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں مجھے لگا کہ وہ مسلسل موجود سیاسی خلا کے بارے میں تشویش زدہ تھے ۔ وہ ایک نئی پارٹی کی ضرورت محسوس کر رہے تھے جو مقامی حکومتوں کا سہارا لے کر اٹھے۔ جہاں تک نام نہاد سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے تو وہ ان کے بارے میں کوئی زیادہ پر امید نہیں دکھائی دے رہے تھے۔ قیادت فطری طور پر نا اہل ہے کہ وہ جمہوری رستوں پر گامزن ہوکر ملک کو پائیدار ترقی کی منزل تک پہنچائے۔ مقامی یا پھر قومی سطح کے انتخابات میں شفافیت کے لیے وہ جہاں الیکشن کمیشن کی استعد کار بڑھانے پر زور دیتے ہیں، وہیں پر ان کا اصرار ہے کہ جدید ٹیکنالوجی پر اعتماد کیا جائے۔ جس ملک میں مذہب ، زبان اور نسل کے زور پر ووٹ بٹورنے کا رواج ہو، وہاں انتخابات کے انعقاد اور نتائج کی ترتیب میں خطا کے پتلے انسانوں کو ، خاص طور نوکری پیشہ افراد کو،ملوث نہ کرنا 'مستحب' بھی ہے اور' مستحسن 'بھی۔