خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے اپنے عہد میں مختلف سفیروں کو مختلف اغراض و مقاصد کے لیے روانہ فرمایا۔ کچھ سفیر تبلیغِ اسلام کے لیے بھیجے گئے تو کچھ دوسرے صلح کے معاہدے کرنے کے لیے اور کچھ سفرا نے بادشاہوں سے مسلم طبقات کی واپسی کی درخواست کی۔ مکتوبات نبوی ﷺکی تحریر اور اسلوب کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے مختلف مملکتوں میں قائم شاہی نظام جو غیر انسانی بنیادوں پر قائم تھاکو چیلنج کرتے ہوئے اسلام کی دعوت دی۔ اکثر ممالک میں شاہی نظام کی گرفت اتنی سخت تھی کہ عوام کی آزادی ان کے فرماں رواؤں کی نظر التفات کا دوسرا نام تھا۔ ان فرماں رواؤں نے مذہبی پیشواؤں کا تعاون حاصل کرکے انسانیت کو اپنے پاؤں تلے روندا۔ عام شہریوں کے حقوق بادشاہوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھے اور انہیں وہ آزادی حاصل نہ تھی جس سے کام لے کر وہ اپنے فیصلے کر سکیں۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ ماہ محرم 7 ہجری کو نبی کریم ﷺ کی ہدایات کے مطابق شاہ ایران کسری کی طرف روانہ ہوئے۔شاہ ایران فارس کے معمول کے مطابق بڑے جاہ و جلال، شان و شوکت کے ساتھ تخت پر متمکن تھا۔ نقیب کی آواز پر ایک شخص دربار میں حاضر ہوا۔ حاضرین نے بڑی حیرت کے ساتھ اسے دیکھا۔ اتنے معمولی لباس اور اس قدر سادگی اور بیباکی سے آج تک خسرو کے دربار میں کوئی نہ آیا تھا۔ عبداللہ بن حذافہ نے نبی کریم ﷺکا خط شہنشاہ فارس کے سامنے پیش کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ بیان کرتے ہیں کہ جب شاہ ایران کو یہ خط پڑھ کر سنایا گیاتو خط سنتے ہی اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ فارس کے بادشاہ خود کو خدا سمجھتے تھے ہر شخص کو ان کے دربار میں آتے وقت سجدہ کرنا پڑتا تھا۔نیز فارس کا یہ دستور تھا کہ بادشاہوں کو جو خط لکھے جاتے تھے ان میں سب سے اوپر بادشاہ کا نام ہوتا لیکن اس حظ کو اللہ رب العزت کے نام سے شروع کیا گیا پھر نبی کریم ﷺکا نام تھا۔ اس نے مکتوب نبوی کو چاک کر دیا۔ حضرت حذافہ دربار رسالت آئے اور تمام واقعہ سنایا تو خاتم الانبیاء ﷺ نے فرمایا۔ "اللہ اس کی حکومت کو پارہ پارہ کردے"۔ پھر کسری کو چین نہیں آ رہا تھا۔ اس دور میں یمن کا علاقہ ایران کے ماتحت تھا۔ شاہ ایران نے یمن کے گورنر کو خط لکھا کہ دو مضبوط آدمی حجاز بھیجیں کہ وہاں نبوت کا دعوی کرنے والے شخص کو(معاذاللہ) گرفتار کرکے میرے پاس لایا جائے۔ ان دونوں نمائندوں نے گورنر باذان کا خط نبی کریم ﷺکو دیا۔ رسول اللہ ﷺ خط دیکھ کر مسکرائے جس سے وہ تھر تھر کانپنے لگے آپ نے فرمایا تم دونوں آرام کرو ، کل آنا تو میں تمہیں اپنے ارادہ سے آگاہ کروں گا۔ نبی کریم ﷺ نے اگلے روز ان سے فرمایا "اپنے صاحب کو بتا دو کہ میرے رب نے اس کے رب کسری کو اس رات سات بجے قتل کر دیا ہے اور یہ 7 ہجری 10 جمادی الاول پیر کی رات کا واقعہ ہے۔" اللہ رب العزت نے اس پر اس کے بیٹے شیرویہ کو مسلط کر دیا اور اس نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔ اس کا بیٹا بھی 6 ماہ سے ذیادہ حکومت نہ کر سکا، اس کے تخت پر 4 سال کے اندر یکے بعد دیگرے دس بادشاہ متمکن ہوئے پھر اس ملک پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ مورخین عام طور پر یہ لکھتے ہیں کہ کسری پرویز نے نبی ﷺ کے مکتوب کو پھاڑ کر پھینک دیا۔ مگر اس کے بعد اس خط کا کیا ہوا ؟ اس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ اس وقت کسی کو علم نہ تھا کہ جس پر شکوہ دربار میں بیٹھ کر اور اپنی شہنشاہیت پر فخر کرتے ہوئے پرویز نے مکتوب نبوی کو درخوراعتنا نہ سمجھا اور پھاڑ دیا وہ دربار عنقریب ہمیشہ کے لیے فنا ہو جائے گا اور اس کی شہنشاہیت و سلطنت تباہ و برباد ہو جائے گی اور مکتوب نبوی ﷺ امتداد زمانہ اور لیل و نہار کی لاکھوں گردشوں کے باوجود سولہ سو سال بعد بھی اپنے وجود کو باقی رکھ کر تاریخ کے صفحات میں ایک حیرت انگیز باب کے اضافے کا موجب ہوگا۔ اس خط کی مکمل تفصیل ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اپنی فرانسیسی کتاب Le Prophet De I'Islam اردو ترجمہ پیغمبر اسلام میں دی ہے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتے ہیں "یہ مئی 1963 کے دوسرے ہفتے کا واقعہ ہے کہ میں اس وقت استنبول میں تھا جب پریس نیوز ایجنسیوں نے اپنے اخبارات کو ایک خبر جاری کی کہ H.pharaon لبنان کے سابق وزیر خارجہ کے پاس ان کے مجموعہ کتب ذخیرہ میں حضور پاک ﷺ کا وہ نامہ مبارک بھی موجود ہے جو آپ ﷺ نے کسری شہنشاہ کے نام لکھوایا تھا۔ اس خبر کو بیروت کے اخبار "المسائ￿ " نے بھی شائع کیا ہے۔اس دریافت سے قبل نیشنل لائبریری آف پیرس کو ایک خط ملا جس میں مذکورہ خط کا فوٹو گراف تھا"۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر حمید اللہ نے وہ دستاویز (جھلی) جس پر یہ تحریر ہے اس کے سائز ، رنگ ، لمبائی چوڑائی سب کی تفصیلات بتائی ہیں۔ اب کچھ یورپین مورخین اعتراض کرتے ہوئے دعوی کرتے ہیں کہ وہ خط کسری کو نہیں مل سکا تھا، کیونکہ جس وقت یہ خط کسری کو روانہ کیا گیا۔ اس وقت کسری کو قتل کیا جا چکا تھا۔ لیکن مذکورہ بالا تمام حقائق نیز تاریخ کی مستند و کلاسیکل کتابوں میں یہ واضح ہے کہ کسری کے دربار میں رسول اللہ ﷺکا نامہ مبارک پہنچا تھا۔ نامہ مبارک چاک کرنا کسری کی پریشان حالی ، شکست خوردگی اور جھجھلاہٹ کا نتیجہ تھا۔ اگر یہ نامہ مبارک کسری تک نہ پہنچا ہوتا تو خط کی توہین کی کہانی کم از کم کوئی مسلمان گھڑ نہیں سکتا تھا۔ غم و غصہ کے انداز سے ہی اس نے یمن کے گورنر کو حکم دیا تھا کہ اپنے طاقتور بندوں سے کہیں کہ وہ نبی ﷺ کو میرے دربار میں حاضر کریں۔ بلاشبہ مغربین کے بیبودے شکوک نبی کریم ﷺکی سیاسی عبقریت اور سیاست خارجہ کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتے۔