آٹھ فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات ہوئے جس میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے میدان مار لیا،مسلم لیگ نواز دوسرے اور پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پہ رہیں،حکومت بنانے کے لیے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی متفقہ لائحہ عمل ترتیب دے رہی ہیں،تحریک انصاف زیرِعتاب ہونے کی وجہ سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے،ہاں اگر یہ آزاد امیدوار اپنا پارلیمانی گروپ بنا کر کوئی متفقہ امیدوار وزارتِ عظمیٰ کے لیے منتخب کر لیتے ہیں تو ممکن ہے یہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں لیکن اس کے لیے بھی انھیں نمبر پورے کرنے ہوں گے جو ایک مشکل مرحلہ ہے۔قوم کا تیس ارب روپیہ لگ گیا اور حاصل کیا ہوا۔ الیکشن کے دوران جہاں دیگر بہت سارے مسائل نظر سے گزرے وہاں سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ان سرکاری ملازمین کا تھا جنھیں حکماً الیکشن ڈیوٹی پر بلایا گیا، اس میں اسی فیصد وہ ٹیچر کمیونٹی تھی جو ہر دور میں سرکار کی ظلم و زیادتی کا نشانہ بنتی رہی۔مردم شماری ہو یا پھر الیکشن ڈیوٹیز،کوئی ریفرنڈم ہو یا پھر کسی بھی طرح کا سرکاری تماشا،سرکاربہادر کی نگاہ اس کمیونٹی کی طرف جاتی ہے۔پاکستان دنیا کا شاید واحد بدقسمت ملک ہے جہاں سب سے زیادہ ذلت کا سامنا ایک استاد کو ہوتا ہے،استاد اپنی زندگی کے انتہائی قیمتی سال اس نسل کی نشوونما کرتا ہے جو ترقی پا کر اسی استاد کو آنکھیں نکالتی ہے،پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر،دونوں میں استاد ایک کم درجے کا انسان سمجھا جاتا ہے،یہاں ساتویں آٹھویں سکیل کا کلرک ایک لیکچرر اور پروفیسر کی پگڑی اچھالنے میں ایک منٹ ضائع نہیں کرتا۔عام انتخابات میں پہلے دو دن اساتذہ کرام کو ٹریننگ کے لیے بلایا جاتا رہا، پھر چار فروری کو الیکشن کمیشن کی طرف سے میسج بھیجا جاتا ہے کہ پانچ فروری کو اپنے آرڈر لینے متعلقہ آر او آفس پہنچیں،ہزاروں اساتذہ آر او آفسز کا رخ کرتے ہیں جہاں انھیںصبح نو بجے سے چار بجے تک قطاروں میں کھڑا کیا گیا،بالکل ایسے جیسے قیدیوں کو جیل سے رہائی کا پروانہ ملنا ہو۔چار بجے نیا حکم نامہ جاری ہوتا ہے کہ گھروں کو لوٹ جائیں،آرڈر واٹس اپ پر پہنچ جائیں گے۔ پھر تیسری مرتبہ سات فروری کو پریذائیڈنگ اور اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسرز کو آر او آفس سامان لینے کے لیے بلایا گیا،ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ آر او آفس گئے جہاں ریٹرننگ آفیسر اور عملہ کسی بھی طرح کے تعاون سے گریزاںرہا۔اساتذہ صبح نو بجے سے رات آٹھ بجے تک ایک پائوں پر کھڑے رہے ۔ جب یہ پورا دن خجل خوار ہونے کے بعد رات گئے اپنے اپنے پولنگ اسٹیشنز پر پہنچے جہاں پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں میں پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے تھے،وہاں کسی بھی طرح کے انتظامات نہیں تھے،یہاں تک کہ اساتذہ کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں تک موجود نہیں تھیں،سات فروری کا پورا دن سامان کے چکر میں اور پوری رات پولنگ اسٹیشنز کی صفائی اور اسٹیشن کی حالت بہتر کرنے میں گزر گئی،ان اساتذہ کو( جن میں ایک کثیر تعداد خواتین کی تھی)رات اپنے اپنے پولنگ اسٹیشنز پر جاگ کر گزارنی پڑی،کیوں کہ عملے کو حکم تھا کہ وہ پولنگ اسٹیشن پر پولنگ شروع ہونے سے دو گھنٹے قبل یعنی آٹھ فروری صبح چھے بجے اپنے اسٹیشنز پر پہنچیں اور ڈیوٹی پر آنے والے اساتذہ رات گئے پولنگ اسٹیشنز کی حالت بہتر کرنے کے بعد گھر جا کر صبح چھے بجے واپس کیسے پہنچتے ،سو ڈیوٹی کرنے والے اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین رات اپنے اپنے پولنگ اسٹیشنز پر گزارنے پر مجبور تھے۔ پرائیوٹ سکولز جہاں پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے اساتذہ سٹوڈنٹس کے بینچوں پر بیٹھ کر پورا دن ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے،صبح آٹھ سے شام پانچ تک بلاتعطل پولنگ جاری رہی،اس دوران اساتذہ کرام بالخصوص خواتین اساتذہ کو طرح طرح سے ہراساں کیا گیا،پولنگ ایجنٹس کی طرف سے ڈیوٹی پر مامور ملازمین کو دھمکیاں دی جا تی رہیں،کبھی کوئی کونسلر آ کر اپنی پارٹی کے لیے چیخ و پکار کر رہا ہے تو کبھی کسی امیدوار کے کارندے پریذائیڈنگ آفیسرکو دھمکیاں لگا رہا ہے۔پھر سیاسی پارٹیوں کی طرف سے جو پولنگ ایجنٹ بٹھائے گئے تھے،ان کا نخرا اور غصہ بھی دیکھنے والا تھا،انھیں شایدیہ پڑھا کر بھیجا گیا تھا کہ دھاندلی سرکاری اساتذہ کرتے ہیں لہٰذا ڈیوٹی پر مامور ملازمین کو مسلسل دھمکیاں دیتے رہیں،گھورتے رہیں تاکہ حالات بہتر رہیں۔خواتین پولنگ اسٹیشنز پر بھی لیڈی کانسٹیبلز کی بجائے مرد کانسٹیبلز کھڑے کر دیے گئے جنھوں نے ڈیوٹی کرنے کی بجائے گھومنے پھرنے پر زور رکھا۔مردوں اور بالخصوص خواتین پولنگ اسٹیشن پر انتہا کی بدنظمی دیکھی گئی ۔ لیڈی کانسٹیبلز کا نام و نشان تک نہیں تھا۔اس کے بعد سکیورٹی کا بہانہ کر موبائل سروس بند کر دی گئی ،الیکشن کے بعد گنتی کرتے اور فارم پینتالیس اور چھیالیس بناتے رات کے بارہ بج گئے،پھر پریذائیڈنگ سامان پہنچانے واپس آر او آفسز پہنچے اور جہاں اگلی صبح دس سے گیارہ تک سامان جمع ہوتا رہا۔یوں سرکاری ملازمین جن میں اسی فیصد اساتذہ(مردوخواتین) تھے،سات فروی صبح نو بجے کے گھر سے نکلے ہوئے نو فروری دن بارہ ایک بجے واپس گھر پہنچے ،یہ تین دن نہ ان کو کھانا میسر تھا،نہ ہی ایک پل کا آرام ۔کیا الیکشن کمیشن کے پاس اتنے بھی وسائل نہیں تھے کہ وہ پرامن ماحول میں الیکشن کروانے کے ساتھ ساتھ ڈیوٹی پر مامور اساتذہ کرام کے لیے کوئی آرام کا یا کھانے پینے کا بندوبست کر سکتے،اگر ایسا ہی رہا تو اگلے الیکشن میں کوئی ڈیوٹی نہیں کرے گا بلکہ ہر کوئی استعفیٰ دینے کو ترجیح دے گا۔