اتوار کے روز یعنی چھٹی کے دن ،اگر صبح دس بجے کسی کانفرنس کے انعقاد و آغاز کا وقت کارڈ پہ لکھا ہو، تو اس میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ پلس کرنا اور سمجھنا ایک فطری تقاضہ اور عملیت پسندی کی دلیل جانی جاتی ہے، ہمارے ہاں تو تقریبات کا یہی چلن اور مزاج ہے۔ آج کل تو از راہ احتیاط یہ بھی پوچھ لیا جاتا ہے کہ تقریب ختم کتنے بجے ہوگی؟میزبان ِمکرم، تقریب کے اختتام کا جو وقت بتاتے ہیں، دراصل وہ پروگرام کے حتمی اور فیصلہ کن راؤنڈ کے آغاز کا وقت ہوتا ہے۔ بہر حال قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کی صوفی کانفرنس اتوار کے روز صبح دس بجے ایوانِ قائد اعظم میں انعقادپذیر تھی، جس پر مجھے قدرے حیرت بھی ہوئی کہ یہ کانفرنس دو، تین گھنٹے میں یعنی دوپہر تک ختم ہوجائے گی اور پھر سامعین و حاضرین کے بقیہ دن کا کیا ہوگا۔ بہر حال کانفرنس سے ایک روز قبل مجھے تقریب کا ’’رَن ڈاؤن‘‘موصول ہواتو مزید حیرت ہوئی، جس میں اوّلین سپیکر کے طور پر مجھے دس بجے کانفرنس ہال میں پہنچنا تھا، میں نے اس شیڈول کو بھی اتنا سیریس نہ لیا کہ یہ شاید کاغذی کارروائی ہے، پھر اتوار کی صبح طلوع ہوئی تو نو بجے ہی برادرِعزیز علی عباس رابطہ کاری میں مستعد ہوگئے اور میں تقریباً بر وقت ہی ہال میں پہنچ گیا۔ جس میں کافی زیادہ کریڈٹ جامعہ نعیمیہ کے سالانہ جلسہ کو جاتا ہے۔ جس کی ابتدائی نشست میں حاضر ہونے کے لیے برادرم ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی نے صبح کے نو بجے سے ذرا پہلے پہنچنے کا فرما رکھا تھا، تقریب میں حاضری اور مفتی اعظم حضرت مفتی محمد حسین نعیمی اورشہیدِ پاکستان ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کے مزارات پر چادر پوشی اور گلاب کے پھو ل پیش ہوئے ،یہ ا دارے جن کے منتظم و مہتمم خطے کے بے سرو ساماں نو جوانوں کی زندگیوں کو دین کے نور سے مزین کرنے میں ساری زندگی گزاردیتے ہیں، ان کی قبروں پہ ایسے ہی پھولوں کی بارش ہوتی ہے۔ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی بلا شبہ ایک عظیم علمی اور تدریسی روایت کے امین و علمبردار ہیں، انہوں نے اس ورثے کو صرف سنبھالا ہی نہیں، آگے بھی بڑھایا ہے اور معاصر دینی اداروں میں سبقت لی اورعصری ضروریات اور تقاضوں کو سمجھا، انہوں نے جامعہ نعیمیہ میں تعمیر و ترقی کے سفر کو خوب سبک خرام رکھا اور حال ہی میں ان کے ادارے کو پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس پروگرام کا الحاق میسر آیا ہے، جو کہ از خود ایک منفرد امر ہے۔ کسی دور میں ہمارے یہ دینی ادارے دین و شریعت کے ساتھ، طریقت و تصوّف کے بھی مراکز تھے، اکثر علمی شخصیات کا سلسلہ بیعت ان کے اساتذہ سے تھا، حضرت مفتی محمد حسین نعیمی،مولانا سیّد نعیم الدین مراد آبادی کے شاگرد اورخطے میں ان کے مشرب کی ترویج کا سبب بنے۔ از خود مدارس میں تصوّف ایک میجر سبجیکٹ کے طور پر دینی درسیات کے نصاب میں شامل تھا۔ شریعت اسلامی کا بنیادی ہدف انسان کی مجموعی اصلاح ہے۔ انسان کا وجود دو جہتوں کا حامل ہے:1۔ظاہر یا مادی جہت۔2۔باطنی یا روحانی جہت --- ان جہتوں کا مناسب ربط اور ان میں ہمہ پہلو توازن ہی خوبصورت زندگی کا مظہر ہے۔ انسان کی ضرورت یہ ہے کہ اس کا ظاھری یعنی مادی وجود بھی توانا اور اس کا باطن یعنی روحانی وجود بھی فعال رہے۔ ظاہر و باطن کا عدم توازن انسان کو متضاد و معاندانہ رویوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ جس سے انسانی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے بنیادی ماخذ قرآن اور حدیث ہیں۔ جن سے ہر طرح کی راہنمائی کے جملہ اصول و ضوابط میسر ہیں۔ معاشرتی زندگی کے احکام کا تعلق’’علم فقہ‘‘ سے اور تہذیب باطن کے حوالے سے راہنمائی علم التصوف سے میسر آتی ہے۔ علوم ظاہری اور تہذیب باطنی کے معار ف و قواعد میں دور ی یا مخاصمت نہیں بلکہ قربت اور تعاون ہے۔ تعلیم و تدریس اور علم و قواعد کو جب فکر ی راستی اور روحانی تابانی میسر آجائے تو انسانی زندگی میں حسن اتر نے لگتا ہے۔ نبی اکرم ﷺکے ارشاد کے مطابق یہی احسان ہے: ان تعبد اللہ کانک تراہ وان لم تکن تر اہ فانہ یر اک ’’(احسان یہ ہے)کہ اللہ تعالیٰ کی یو ں عبادت کر و کہ جیسے تو اس کو دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہ دیکھ پائے تو یوں خیال کر کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ ‘‘ اسلامی تصور علم میں تعلیم و تربیت دونوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے، جس میں ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفس دونوں کو سا تھ ساتھ انجام دینا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام و تعلیم میں تعلیم اور سیرت سازی کے ایک ہی حقیقت کے دو پہلو رہے ہیں۔ اس کا اظہار علم و فضل کی اصلاح سے بھی ہوتا ہے جو علم، نیکی اور اخلاق حسنہ جیسے مفاہیم کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں ’ ’صفہ‘‘کے نام پہلی منظم درس گاہ قائم فرمائی۔ جس میں اصحاب صفہ متعلم تھے اور آنحضورﷺان کے معلمِ اعلیٰ۔ صفہ کے انداز و تربیت ہی سے صوفی اور تصوف جیسی اصلاحات معرض و جود میں آئیں اور صوفیاء نے خانقاہی نظام کو اسی صفہ سے مستفیض و مستنیر کیا۔ ابتدائی چار صدیوں میں ہماری مساجد ہی دینی تعلیم کا مرکز و محور ہیں۔ ایک ایک مسجد میں کئی کئی حلقے اور ان میں پھر کئی ہزار طلبہ کی شمولیت ہماری تاریخ کا زر یں باب ہے۔ مساجد کے علاوہ باقاعدہ مدارس کی تشکیل کا آغاز پانچویں صدی ہجری میں ہوا۔ اس خطہ میں سب سے پہلا مدرسہ محمود غزنوی نے اپنے پایہ تخت غزنی میں قائم کیا۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنی پوری مملکت میں بے شمار مدارس قائم کیے۔ تاریخ نے سلطان محمود غزنوی کو اس کے عسکری حملوں کی وجہ سے تو یاد رکھا ہے۔ لیکن علم کی دنیا میں جو انقلاب آفرین اقدام اس نے کیے اس کا قرار واقعی اعتراف نہیں کیا گیا۔ بلاشبہ غزنوی فتوحات سے ہندوستان کی سیاسی تمدنی اور مذہبی زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ سلطان محمود غزنوی نے 999ء سے 1030ء تک ہندوستان کو اپنی جہانکشایانہ ہمت کا باز یچہ بنائے رکھا اور کم وبیش سترہ بار اس کو زیر و زبر کیا۔ جس وقت پنجاب پر غزنویوں کا تسلط قائم ہوا۔ اس وقت تفسیر، حدیث، فقہ اور تصوف جیسے تمام اسلامی علوم اچھی طرح نشو و نما پاچکے تھے۔ غزنی جو محمود کے زمانے میں اسلامی عجم کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ ان سب علوم کا گہوارہ بن گیا تھا اور جب پنجاب، سلطنت غزنی کا حصہ بنا تو ناممکن تھا کہ وہ دارالحکومت کے ماحول سے متاثر نہ ہوتا۔ بلاشبہ بر صغیر میں علوم اسلامی کی ترسیل غزنویوں کے عہد میں ہوئی،پنجاب اور پنجاب میں بھی لاہور کو علمی، تمدنی اور دینی اعتبار سے سب سے زیادہ ترقی نصیب ہوئی۔ جہاں الشیخ محمد اسماعیل بخاریؒکو فضل تقدم حاصل ہوا الشیخ السیّد علی بن عثمان الہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخشؒ غزنی کے ایک گاؤں ہجویر کے رہنے والے تھے۔ آپؒ علم و فضل اور زہدو ورع میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ آپؒ نے اپنے عہد کے مشہور علماء حضرت ابو العباس بن محمد الا شقانی ؒ، شیخ ابو جعفر محمد بن الصباح الصید لانیؒ جیسی ہستیوں سے اکتساب علم کیا اور باطنی اصلاح و ترتیب کے لیے شام، عراق، بغداد، آذر بائیجان، طبرستان، کرمان، خراسان، ماورا النہر اور ترکستان وغیرہ کا سفر کیا اور مشاہیر صوفیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؒ نے لاہورمیں علم وعرفان کی شمع فروزاں کی، تصوف و روحانیت کی تعلیمات کو عام کیا اور کشف المحجوب جیسی معرکتہ الآ راء کتاب تصنیف فرمائی۔