پنجاب میں ضمنی انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔تحریک انصاف نے بیس میں سے اٹھارہ نشستوں کے لیے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے جبکہ ن لیگ کئی حلقوں میں کشمکش کا شکار ہے ۔ ن لیگ کی مشکل سمجھ میں آتی ہے، اس کے پاس ہر حلقے میں دو امیدوار ہیں،ایک وہ جو 2018 میں ن لیگ کے ٹکٹ سے الیکشن لڑے اور ہار گئے مگر ماضی میں شیر کے نشان سے الیکشن جیتتے بھی رہے ہیں، یعنی پارٹی کے پرانے ورکر ہیں۔دوسرے وہ جوتحریک انصاف سے منحرف ہو کر ن لیگ کی جھولی میں آ گرے ہیں ۔ لیگی قیادت کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ اگر منحرف اراکین کوٹکٹ دیتے ہیں تو اپنا ورکر اور سابق ٹکٹ ہولڈر ناراض ہوتا ہے اور اگر اپنے ورکر کو ٹکٹ دیتے ہیں تو منحرف رکن دوبارہ منحرف ہو کر رخ تبدیل کر سکتا ہے۔ ایسے میں ن لیگ کے لیے مشکل یہ ہے کہ کرے تو کیا کرے ۔جن حلقوں میں منحرف اراکین کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے،وہاں صورتحال کافی پیچیدہ ہو گئی ہے ۔ مثلا PP-97 ہی کو لیجے۔ یہ فیصل آباد کی تحصیل چک جھمرہ کا حلقہ ہے۔ یہاں 2018 میں اجمل چیمہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے خواہشمند ہوتے ہوئے بھی ٹکٹ حاصل نہ کر سکے تھے۔تحریک انصاف نے ساہی خاندان کو ہی ٹکٹ دینا مناسب سمجھا۔ اجمل چیمہ تحریک انصاف کے کارکنوں میں کافی ورکنگ کر چکے تھے۔ ٹکٹ نہ ملنے پر کارکن دو حصوں پر تقسیم ہو گئے ۔ اجمل چیمہ آزاد حیثیت میں جیت کر تحریک انصاف میں آ گئے اوراب منحرف ہو کر دوبارہ ن لیگ کے ٹکٹ سے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ن لیگ نے ان سے ٹکٹ کا وعدہ کر لیا ہے مگر ابھی اعلان ہونا باقی ہے۔ یہاں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اسی حلقے سے ن لیگ کے آزاد علی تبسم نے پچھلے انتخابات میں 35ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے وہ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ ایم پی اے رہ چکے ہیں ۔اجمل چیمہ کو ٹکٹ ملنے سے وہ شدید پریشان ہیں ، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اگر بغاوت کا اعلان نہ بھی کریں تو بھی اپنے کارکنوں کے ساتھ خاموش بیٹھیں گے اور اجمل چیمہ کی حمایت میں کھڑے نہ ہوں گے۔ دوسری طرف علی افضل ساہی کی انتخابی مہم زور و شور سے جاری ہے ۔ ایسا لگتا ہے انہوں نے اس انتخاب کو ایک چیلنج کو طورپر لیا ہے ۔وہ اجمل چیمہ سے پچھلی ہار کا بدلہ بھی چکانا چاہتے ہیں اور تحریک انصاف کو بھی بتانا چاہتے ہیں کہ وہی اس نشست کے صحیح حقدار ہیں ۔ حالات و واقعات کو دیکھیں تو یہ سیٹ ن لیگ کے ہاتھ سے پھسلتی دکھائی دیتی ہے۔ ساہیوال میں بھی صورتحال دلچسپ ہے۔PP202 سے نعمان لنگڑیال کے منحرف ہو جانے کے بعد یہ سیٹ خالی ہوئی اور اب یہاں بھی ضمنی انتخابات کا میدان سج چکا ہے۔ نعمان لنگڑیال نے 2018 میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہوئے 57 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ جبکہ ن لیگ کے شاہد منیر 44 ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ اب ن لیگ نے یہاں بھی تحریک انصاف کے منحرف رکن کو ٹکٹ دے کر اپنے اصل امیدوار کو ناراض کر لیاہے۔ جبکہ تحریک انصاف نے اپنے بانی کارکنوں میں سے ایک میجر سرور کو ٹکٹ دینے کا اعلان کیا ہے جو پہلے بھی اس حلقے کی سیاست میں متحرک رہے ہیں ۔ چونکہ اس حلقے میں لنگڑیالوں کو کافی اثر و رسوخ ہے اس لیے شاید نعمان لنگڑیال یہاں سے سیٹ تو جیت جائیں لیکن ن لیگ کو بطور جماعت یہاں کافی ٹھیس پہنچے گی کیوں کہ ان کا نظریاتی کارکن یہاں بھی ناراض دکھائی دیتاہے۔ ادھر PP207 ملتان میں صورتحال کافی دلچسپ ہے۔ یہاں سلمان نعیم نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے ہوئے تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی کو شکست دے دی تھی۔ سلمان نعیم خود بھی متحرک نوجوان ہیں اور انہیں 2018 میں جہانگیر ترین کی مکمل حمایت بھی حاصل تھی۔ سلمان نعیم بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا اور ڈی سیٹ ہو گئے ۔ سلمان نعیم اس حلقے میں کافی متحرک اور مقبول ہیں ۔ شاہ محمود قریشی کو شکست دینے کے بعد ان کے اعتماد میں بہت اضافہ ہوا تھا۔ چند د ن پہلے تک معلوم ہوتا تھا کہ ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کا کوئی امیدوار سلمان کے مقابلے میں ٹھہر نہیں پائے گا۔ تحریک انصاف نے یہاں زین قریشی کو ٹکٹ دینے کا نہایت مشکل فیصلہ کیا ہے۔ ایک طرف یہ بات درست ہے کہ تحریک انصاف اگر زین قریشی کو ٹکٹ نہ دیتی تو یہ ایک یکطرفہ مقابلہ ہوتا اور سلمان نعیم آسانی سے اپنی نشست جیت جاتے ۔ دوسری طرف شاہ محمود قریشی نے ایک بڑا سیاسی رسک بھی لیاہے۔اگر باپ کے بعد بیٹا بھی ایک نوجوان سے ہار جاتا ہے تو سیاسی طور پر اس بڑے اور پرانے سیاسی خاندان کو ایک دھچکا لگے گا۔ لہذا یہ حلقہ نہایت دلچسپ صورتحال اختیار کر گیا ہے۔ یہاںبظاہر تو زین قریشی کا مقابلہ سلمان نعیم سے ہے لیکن اصل مقابلہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کا بھی ہے۔ ایک طرف شاہ محمود قریشی اپنی پچھلی ہار کا بدلہ چکانا چاہیں گے تو دوسری طرف جہانگیر ترین اپنے پارٹی سے نکالے جانے کا سارا غصہ شاہ محمود قریشی کے خاندان پر نکالنا چاہیں گے۔ دیکھیں ان انتخابات سے کیا نتیجہ اخذ ہوتا ہے۔ کہنے کو یہ بیس حلقوں کا انتخاب ہے لیکن دراصل یہ ن لیگ اور تحریک انصاف کے بیانیے کی بقا کی جنگ ہے ۔ ن لیگ کے امیدواروں کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کا چیلنج بھی درپیش رہے گا۔ ان پر امریکی سازش اور پیسے لینا کا الزام بھی لگ چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ کے امیدوار جیت کر عمران خان کے بیانیے کو رد کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا انحراف کے باعث اپنا سیاسی مستقبل قربان کر بیٹھتے ہیں ۔