محبت کے طریقہ ہائے واردات بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی یہ کسی گھاک شکاری کی طرح شست باندھے بالکل تیار بیٹھی ہوتی ہے۔ آپ کتنے بھی محتاط ہوں یہ آپکو شکار کرلیتی ہے کیونکہ اس کا تجربہ آپ سے زیادہ ہوتا ہے۔کبھی آپ کسی خوش دل لڑ کے کی طرح اپنی دھن میں مست چلے جارہے ہیں کہ اچانک کسی منحوس کالی بلی کی طرح یہ آپ کا راستہ کاٹ لیتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہری بھری سڑک کانٹوں بھری پگڈنڈی میں بدل جاتی ہے۔کبھی آپ کسی آسیب کی طرح اس کے جھپیٹے میں آجاتے ہیں کیونکہ آپ غلطی سے وہاں سے گزرگئے تھے جہاں وہ چپ چاپ کھڑی کسی بھٹکے مسافر کی راہ تک رہی تھی۔ ہر محبت آپ کے وجود کا ایک حصہ آپ سے الگ کردیتی ہے اور کسی ایسے نامعلوم مشترکہ اکاونٹ میں جمع کروادیتی ہے جہاں صدیوں سے ایسے ہی لاوارث نامکمل ٹکڑے بے یارومددگار پڑے اپنے مصرف کے منتظر ہوتے ہیں۔گاہے یہ کسی چور صفت مرض کی طرح دبے پائوں لاحق ہوجاتی ہے اور جب خبر ہوتی ہے تو مرض لاعلاج ہوچکتا ہے۔ دواا ور دعا دونوں رائیگاں۔ ایسے میں چارہ ساز کسی مایوس طبیب کی طرح سر ہلادیتا اور ہاتھ اٹھا لیتاہے۔ کبھی مریض پہ تو کبھی علاج سے۔ دونوں کا ایک سا اثر ہوتا ہے یعنی کچھ بھی نہیں۔جب حالات اتنے دگرگوں ہوجائیں تو اچھا بھلا کٹر وہابی مزاروں پہ چادریں چڑھاتا اورخاندان کے ان بزرگوں کی جوتیاں کھاتا پھرتا ہے جنہوں نے جوانی میں یہی حرکتیں کی ہوتی ہیں۔ہر دو سے، مرض میں افاقے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا ہے جسے وہ صاحب مزار کی کرامت سمجھتا اور اپنی یکطرفہ محبت کی صداقت پہ ایک بار پھر صدق دل سے ایمان لے آتا ہے جس کا واحد ثبوت ہمارے معاشرے میں یہ ہے کہ اس کا مریض فریق ثانی اور اس کے گردو نواح کے لوگوں سے ذلیل ہوتا رہے ۔دو طرفہ پرخلوص محبت کی ہماری طرف نہ کوئی عزت ہے نہ اس میں کسی کو دلچسپی ہوتی ہے اورنہ ہی یہ پائی جاتی ہے۔اگر یہ پائی جائے تو ہر کس و ناکس کوشش کرتا ہے کہ کسی ایک فریق کو اتنا ورغلا دیا جائے کہ یہ دو طرفہ محبت یکطرفہ محبت میں تبدیل ہوجائے تاکہ کچھ مزا تو آئے۔ خوش باش محبت کرنے والا جوڑا تو گویا ہمارے زود حس و زود رنج معاشرے کا منہ چڑاتا نظر آتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں چونکہ ہر جذبہ محبت ،نفرت ،رنج، تعلق وغیرہ اپنی انتہا پہ پایا جاتا ہے اس لئے سیدھی سادی محبت اور اس کے نتیجے میں سادہ سی شادی میں کوئی سنسنی محسوس نہیں ہوتی اس لئے کوشش کی جاتی ہے کہ نین اور دل وہاں لگائے اور لڑائے جائیں جہاں کامیابی کا امکان قومی کرکٹ ٹیم کی جیت سے بھی کم ہو تاکہ اس کے منطقی نتائج کے نتیجے میں خود کشی کی جاسکے جس کا دعوی پہلی ہی ملاقات میں تم نہ ملیں تو مرجاوں گا جیسے فقروں سے کیا جاچکا ہوتا ہے ،حالانکہ فریق ثانی نے بھی ماموں کے بیٹے سہیل بھائی کے نام کی انگوٹھی پہلے ہی پہن رکھی ہوتی ہے ۔ ادھر پھپھو کی بیٹی ہمیشہ ہی سین میں انٹری کے لئے گھونگھٹ نکالے ایک پیر ڈولی میں لٹکائے تیار کھڑی ہوتی ہے جس سے محبت میں بعد ازاں در آنے والے بحث و مباحثے میں جو یقینا عالمی سیاست یا کساد بازاری پہ نہیں ہوتے ،برہان قاطع کا کام کسی بھی وقت لیا جاسکتا ہے۔ یہ کسی بھی وقت کسی بھی وقت آسکتا ہے۔یہ عین پہلے معاشقے کے عالم شباب میں درانہ وار در آنے والا دوسرا معاشقہ بھی ہوسکتا ہے جس کی عمر بھی بس اتنی ہی ہوتی ہے کہ ’’تیرے نام سے شروع تیرے نام پہ ختم‘‘ والا فلمی نغمہ گنگنایا جاسکے یا پھر یہ والدہ محترمہ کی دودھ نہیں بخشوں گی قسم کی کسی دھمکی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے جو حیرت انگیز طور پہ اس پھپھو کی بیٹی کو بہو بنانے پہ تل جاتی ہے جس کے جادو ٹونوں کی جھوٹی سچی کہانیاں سنا کر اس نے ساری جوانی گوئیبلزی پروپیگنڈا کرکے بچوں کے دل میں زہر بھرا ہو۔معصوم عاشق جسے بھینس جیسی محبوبہ کے سوا کچھ دکھائی نہ دے رہا ہو یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ اچانک اس کی جادوگر پھپھو اتنی عظیم کیسے ہوگئی۔ اسی الجھن میں دن رات گم صم رہنے کے بعد وہ حواس باختگی کی اس اسٹیج پہ آجاتا ہے جہاں باآسانی اس کا عقد بالجبر حسب منشا کسی سے بھی کرایا جاسکے کیونکہ اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ برخوردار کہیں اپنی مرضی سے شادی نہ کرلے اور ہاتھوں سے جن میں وہ پہلے بھی کبھی نہیں تھا، نکل نہ جائے۔حیرت اس طریقہ علاج بلکہ واردات پہ نہیں بلکہ اس پہ ہے کہ یہ سو فیصد کامیاب ہوتا ہے۔ہرجائی محبوب عموما فرمانبردار بیٹا اور تابعدار شوہر ثابت ہوتا ہے اس طرح وہ دنیا اور آخرت دونوں میں گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔عشق میں کی گئی نیٹ پریکٹس ازدواجی زندگی میںخوب کام آتی ہے چناچہ اسکور بھی قابل رشک ہوتا ہے۔ ساری دنیا میں شادیاں محبت اور مرضی سے اس لئے کی جاتی ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ خوشی سے گزران کی جاسکے لیکن ہمار ی طرف شادی جیسا نہایت اہم معاملہ وہ لوگ طے کرتے ہیں جنہیں ہماری زندگیاں نہیں گزارنی ہوتیں۔ایسی شادیاں ناکام ہوں یا کامیاب ، محبت میں ناکامی کی کسک کہیں نہ کہیں ضرور رہ جاتی ہے۔ مڈ ایج کرائسس میں مرد عام طور پہ اسی کھوئی ہوئی محبت کے نام پہ نری رسوائیاں اٹھاتا اور پرائی بہو بیٹیوںسے گالیاں کھاتا ہے۔کچھ سچے عاشق یہ نوبت آنے سے پہلے خودکشی کرلیتے ہیں اور عزت کی موت مرجاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو والدین کی مرضی سے شادی کرنے والوں کو بھی شریک زندگی سے گزارے لائق محبت ہوہی جاتی ہے اور دیکھا جائے تو زندگی گزارنے کے لئے بس اتنی ہی محبت درکار بھی ہوتی ہے۔ دکھ لیکن صرف ہجر کے نہیں ہوتے، نارسائی کے بھی ہوتے ہیں۔ادھوری محبت ذات میں ایسا خلا چھوڑ جاتی ہے جو بھر تو جاتا ہے لیکن بدنما نشان بتا دیتا ہے کہ اکھاڑی گئی اینٹوں میں طیغہ کہاں کیا گیا ہے۔