آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں رواں سال کی بدترین مندی ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔تاجروں کے 332ارب روپے ڈوب گئے ہیں۔ تاجر پریشان ہیں اور متفکر ہیں کہ منی بجٹ کس کس صنعت کے لئے موت کا پیغام لے کر آتا ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کا کوئی تاجر یا صنعت کار خوشی سے ٹیکس دینے پر تیار نہیں ہے اور آج تک کسی بھی حکومت نے تہہ دل سے ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ جس حکومت نے بھی یہ کوشش کی ہے ،بڑی جلدی اس کے پائوں ڈگمگا گئے ہیں اور اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا ہے۔حتیٰ کہ پرویز مشرف کی فوجی حکومت کو بھی اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔سیاسی حکومتوں کو تو ویسے ہی تاجروں کو ناراض کرنا یا کسانوں کو اپنے خلاف کرنا کسی قیمت پر گوارہ نہیں ہے۔آخر اس بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ہم ترقی یافتہ ملکوں کی مثال دیتے نہیں تھکتے لیکن ہم من حیث القوم ان کے طریقے اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔جب ہم ایک قوم کے طور پر ذاتی فوائد سے اوپر اٹھ کر اجتماعی خوشحالی کے تصور سے آشنائی حاصل کر لیں گے ،تو ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔پاکستان میں ہر شخص سخت قوانین کے نفاذ کا خواہش مند ہے لیکن وہ خود اپنے لئے ان قوانین کو پسند نہیں کرتا۔ملاوٹ شدہ خوراک کھانے کا کوئی شخص بھی شوقین نہیں ہے لیکن وہ خود ملاوٹ کرنا چاہتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص ملاوٹ شدہ خوراک کھاتا ہے۔ایک چیز میں ملاوٹ کا وہ مرتکب ہوتا ہے اور ایک ہزار ملاوٹ شدہ چیزیں وہ کھاتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اس فلسفے کو سمجھ چکے ہیں اور وہ چند چیزوں کے علاوہ ہمارے دین مبین پر ہم سے کہیں زیادہ کارمند ہیں۔انہیں خوراک بھی خالص ملتی ہے اور دوائیں بھی اور اس سارے دائرہ کارمیں حکومت کا ایک بہت اہم کردار ہے ۔گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی ہی اس سارے مسئلے کا حل ہے۔اگر حکومت اس بات کو یقینی بنا سکے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے اور سستا انصاف ہر شخص کو اس کی دہلیز پر مہیا ہو گا ،تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو ترقی یافتہ ملکوں کے ہم پلہ نہ بنا سکیں۔ہم فروعی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں اور ہماری سیاسی جماعتیں اور حکومتیں اس قدر کوتاہ اندیش ہیں کہ وہ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ہر سیاسی جماعت حکومت میں رہنا چاہتی ہے اور قیامت تک رہنا چاہتی ہے۔ان کا اول و آخر مطلوب یہ ہے کہ وہ پانچ سال پورے کرے اور آئندہ انتخاب میں بھی کامیاب ہو جائے۔عوام کی دگرگوں حالت سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے۔عوام کے لئے صرف وعدہ فردا ہے۔دولت کی فراوانی اور خوشمالی صرف اپنی آل و اولاد کے لئے ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سیاستدان کی اولاد سیاست کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔انہیں پڑھائی لکھائی‘نوکری یا کاروبار کسی چیز کی فکر نہیں ہے۔نہ وہ سائنسدان بننا چاہتے ہیں نہ انجینئر نہ ڈاکٹر۔وہ صرف سیاستدان بننا چاہتے ہیں تاکہ سیاست کے زور پر پوری قوم کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکیں اور اپنے خاندان کے لئے دولت سمیٹیں۔وزیر اعظم عمران خان چونکہ ایک غیر روایتی سیاستدان تھے، اس لئے قوم نے ان کے ساتھ ضرورت سے زیادہ امیدیں وابستہ کر لیں۔عام لوگوں کا خیال تھا کہ وہ میرٹ پر کام کریں گے اور پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہو گی۔آج بھی عمران خان نے یہی فرمایا ہے کہ وہ اپنی پالیسی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور کرپشن کرنے والا جو بھی ہو اسے گرفت میں لایا جائے گا۔لیکن افسوس صد افسوس کہ انہوں نے چند اچھے کام کرنے کے علاوہ عمومی طور پر اپنا عہد اقتدار ضائع کر دیا۔نہ وہ کسی کرپشن کرنے والے کو گرفت میں لا سکے نہ قانون توڑنے والوں کا ہاتھ پکڑ سکے۔وہ سطحی قسم کے کاموں میں الجھے رہے اور ساڑھے تین سال میں ایک کامیاب اور موئثر ٹیم بھی ترتیب نہ دے سکے۔وہ آج تک قوم کو نہیں بتا سکے کہ ان کا طویل المدتی پلان کیا ہے۔ مثال کے طور پر اس قوم میں شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہم نے کب تک چلنا ہے اور اس سے جان چھڑانے کے لئے ہمارا حتمی منصوبہ کیا ہے۔اگر واقعی کوئی ایسا منصوبہ ہے تو قوم کو اعتماد میں لینے سے کیا امر مانع ہے۔عام آدمی کو تو یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ کتنا قرضہ لیا گیا ہے اور کتنا قرضہ واپس کیا گیا ہے۔ان قرضوں کی شرائط سے تو پوری قوم بے خبر ہے۔ اپوزیشن تو الزامات لگاتی ہی ہے لیکن اب تو پنجاب کے گورنر بہادر بھی یورپ کے دورے کے دوران حکومت کے پول کھول رہے ہیں۔وہ نہ صرف حکومت کی ناکامی کا برملا اعتراف کر رہے ہیں بلکہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ 6ارب ڈالر قرضے کی خاطر حکومت پاکستان نے سب کچھ لکھ کر دے دیا ہے۔یہ یقینا قوم کے دلوں میں موجود خدشات کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔اس سے پہلے چوہدری سرور ن لیگ کی حکومت میں بھی گورنر پنجاب رہ چکے ہیں اور ان کی پالیسیوں سے شاکی ہو کر انہوں نے استعفیٰ دیا تھا اور پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔اب وہ پی ٹی آئی سے گلہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں اور گورنر کے طور پر سائڈ لائن کر دینے کی شکایت رکھتے ہیں۔یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے اصل عزائم کیا ہیں لیکن عمران خان کو ایک بار پھر غور کرنا چاہیے کہ وہ اچھی ٹیم بنانے میں کیوں ناکام ہیں اور وہ میرٹ پر فیصلے کیوں نہیں کر پاتے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے عزت مآب جج صاحب نے استفسار کیا ہے۔ کیا پاکستان کی ریاست اتنی کمزور ہے کہ دبئی سمگل شدہ بچوں کو واپس نہیں لا سکتی۔دبئی تو پاکستان کی تحصیل سے بھی چھوٹا ہے۔بدقسمتی سے دنیا میں ملکوں کو طاقت اور اقتدار سائز کے لحاظ سے نہیں ملتا بلکہ ملکوں میں معیشت‘قانون کی حکمرانی اور گڈگورننس ان کو طاقت عطا کرتی ہے۔اگر ہم چھوٹے موٹے ملکوں کے مقروض ہوں گے، تو ہم کیسے ان سے اپنے مطالبات منوا سکتے ہیں۔اپنے قرضوں کی وجہ سے ہمیں چھوٹے چھوٹے ممالک کی اطاعت گزاری کرنی پڑتی ہے اور ان کی شرائط ماننی پڑتی ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے ملک کے تمام ادارے سوچ و بچار کریں کہ ہم نے اپنے ملک کو کس طرح ان مشکلات سے نکالنا ہے اور مستقبل میں اپنے ملک کے لئے کس منزل کا تعین کرنا ہے۔اعلیٰ عدلیہ کو بھی سوچنا پڑے گا کہ کس طریقے سے عوام کو سستا انصاف مہیا کرنا ہے ۔ہمارے تمام اداروں کو ایک دوسرے پر تنقید کرنے سے پہلے خود اپنی ساکھ بحال کرنے اور ملک کی ترقی و تعمیر میں اپنے حصے کے بارے میں غور و غوض کرنا چاہیے۔قانون کی حکمرانی اور انصاف کا حصول کسی بھی ملک کی ترقی کی بنیادی شرط ہے ،اس ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی ملک کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت آج کے پاکستان کی آبادی ساڑھے چار کروڑ تھی اور آج تقریباً23کروڑ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے، آج سے تیس چالیس سال بعد ہماری آبادی کیا ہو گی؟آبادی بڑھ رہی ہے اور وسائل سکڑ رہے ہیں۔کیا آج تک کسی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی اقدامات کئے ہیں، اگر بنگلہ دیش اپنی آبادی کنٹرول کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔اگر ہم طویل المدت منصوبہ بندی کریں گے تو بچیں گے، ورنہ مختلف گروپوں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے۔