عجیب منظر ہے، ہمہ وقت دونوں فریق ایک دوسرے کی کمزوریاں اچھالنے میں لگے رہتے ہیں۔ سامنے کی اس سچائی سے بے خبر کہ زندگی اپنے محاسن پہ بسر کی جاتی ہے، دوسروں کی خامیوں پر نہیں۔ سچائی کی سیدھی، صاف اور اجلی شاہراہ کے سوا سب ہنر وہ آزماتے ہیں، عجیب لوگ! مرحوم مجید نظامی سے ایک بار جنرل محمد ضیاء الحق اورمتحارب سیاسی لیڈروں کا موازنہ کرنے کی درخواست کی تو بولے: اونٹ سے کسی نے پوچھا تھا: چڑھائی گوارا ہے یا اترائی۔ اس نے جواب دیا ’’ہر دو لعنت‘‘ عمران حکومت نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ نوکریاں اور مکانات تو الگ اور بھی کچھ نہیں۔ رشوت کے نرخ پہلے سے زیادہ۔ اذیت ناک روز افزوں مہنگائی اور پھیلتی ہوئی بے روزگاری۔ چولہے بجھ گئے۔ کتنے چہرے اورکتنے دل بے بسی کی تصویر ہو گئے۔ اصلاحِ احوال کیا، کہیں کسی شعبے میں ابتدا بھی نہیں۔ وہی خونخوار پٹواری، وہی بے رحم پولیس۔ وہی اذیت پسند سول سروس۔ عمران خان کی ذاتی دیانت کا ڈھنڈورا ہمہ وقت پیٹاجاتا ہے۔ سرکاری دفاتر میں سائل مگر پہلے سے زیادہ رسوا۔ خان صاحب اپنے فضائل کے چرچوں سے کبھی نہیں اکتاتے۔وزرا کہتے ہیں کہ گاہے بیشتر وقت ان کے خطبے میں بیت جاتا ہے۔ ہر روز بتاتے ہیں کہ ساری خرابی اپوزیشن کے طفیل ہے۔ کرونا کے باب میں ان کی بات درست سہی لیکن کوئی بھرپور مہم نہ چلاسکے۔یہی کشمیر میں ہوا۔اللہ جانے کیوں ہوا۔ بغاوت پہ تلے دکانداروں پہ سرکاری رٹ نافذ نہ ہو سکی۔بجا ارشاد کہ قرضوں کا انبار ماضی میں جمع ہوا، کرپشن کے المناک سلسلے رہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے کیا کیا۔ کوہ پیما کہتے ہیں کہ منزل پر نہیں،ان کی نگاہ فقط اگلے قدم پہ ہوتی ہے۔ ایک ایک زینہ طے کرتے ہوئے بالاخر وہ مراد کو جا لیتے ہیں۔ خان صاحب تو آغاز ہی کر نہ سکے۔عصرِ رواں کے عارف سے کسی نے پوچھا: راہِ سلوک کے مسافر کو حصول میں کتنی مہلت درکار ہوتی ہے؟ فرمایا’’راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتاہے‘‘۔ اس نادرروزگار ناول نگار قرۃ العین حیدر نے لکھا تھا: ابدیت سفر کو ہے، مسافر کو نہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: اعمال کا دارومدار نیت پہ ہوتاہے۔ خان صاحب موزوں کابینہ، موزوں مشیروں اور وزرائے کرام کا انتخاب بھی نہ کر سکے۔ سول سروس ایک گھوڑا ہے۔ہنر مند شہسوار ہو تو جہاں چاہے اسے لے جائے۔ جس سمت کو چاہے صفتِ سیلِ رواں چل وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا افسر شاہی نے سوار ہی ہونے نہ دیا۔ مشق ہی نہ تھی، تیاری ہی نہ تھی۔ بس خیال اورخواب۔ سمت کا شعور ہی نہ ہو تو یہی ہوتاہے۔ ہم سے کیا ہو سکا محبت میں تم نے تو خیر بے وفائی کی فرمایا: پانچ برس بہت تھوڑے ہیں۔اسی آدمی نے نوّے دن میں کرپشن مٹانے کا وعدہ کیا تھا۔ حکمران معاشرے کا سب سے ذمہ دار آدمی ہوتاہے۔ ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر اسے بولنا چاہئے۔قائدِ اعظم نے کہا تھا: بات کرنے سے پہلے سو بار میں سوچتا ہوں لیکن فیصلہ کر چکوں تو بدلتا کبھی نہیں۔ تحریکِ انصاف شور مچانے والوں کا ایک ہجوم ہے۔ اب کوئی امید ان سے وابستہ نہیں کہ معیشت کو فی الواقعی بحال کر سکیں، جو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور عام آدمی کا بھی۔ظہیر کاشمیری کا شعر ہے امید کا آنگن فرسودہ، وعدوں کی چھتیں کمزور بہت اور اس پہ ہجر کے موسم میں برسی ہے گھٹا گھنگھور بہت یہ شوکت عزیز کا عہد تھا۔پاکستانی اینکر جیسمین منظور نے مہاتیر محمد سے ان کی خیرہ کن کامیابیوں کا راز پوچھا تو کہا: حکمران کو سیاسی حرکیات کا شعور ہونا چاہئیے اور معیشت کے زیرو بم کا بھی۔خاں صاحب ان دونوں سے نابلد ہیں۔ اس پر ان کے لائق مشیر۔ خان صاحب کے اقتدار کی کلید دو شاہی خاندانوں کی بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں میں ہے۔ زرداری اور شریف خاندان سے لوگ مایوس ہوئے تو ان پہ اعتبار کیا۔ پارٹی ڈھنگ سے منظم کی ہوتی اور ذمہ داری لائق لوگوں کو سونپی ہوتی تو اسٹیبلشمنٹ کی تائید درکار نہ ہوتی۔ وہ مقبول تھے، عالمی کپ کے فاتح، شوکت خانم اور نمل کالج کے معمار۔ 2005ء کے زلزلے میں مرکزی حکومت کے سوا سب سے بڑا کارنامہ انہی نے انجام دیا۔ عمران خان فاؤنڈیشن کے تحت دس ہزار عارضی گھر تعمیر کیے۔ یہ باوسائل پنجاب حکومت کے مساوی تھے۔ اقتدار کی بے تابی میں سوچے سمجھے بغیر وعدوں پہ وعدے وہ کرتے رہے، دعووں پہ دعوے اور سمجھوتے پہ سمجھوتے۔ نتیجہ اس کے سوا کیا ہوتا کہ بے دلی کی تصویر ہو گئے۔ حسرتیں دل کی مجسم نہیں ہونے پاتیں خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتاہے عجیب و غریب فلسفہ پیش کیا کہ لیڈر ایماندار ہو تو معاشرہ سنورنے لگتاہے اور سنورتا چلا جاتاہے۔ یہ تاریخی اور سیاسی شعور سے بے بہرہ ہونے کی بات تھی۔ تاریخ کے کامیاب مدبرین پہ نگاہ ڈالی جائے تو کھلتا یہ ہے کہ اپنے ساتھیوں کی انہوں نے تربیت کی اور کرتے رہے۔ آنکہ ایک صالح اور قابلِ اعتبار گروپ وجود میں آگیا، ہمیشہ ہر طرح کی ذمہ داریاں جسے سونپی جا سکتیں۔خود خان صاحب کے صدر دفتر میں فیڈل کاسترو کا قول کبھی آویزاں تھا’’آٹھ آدمیوں سے میں نے آغاز کیا تھا۔پھر سے موقع ملے تو چار سے کروں‘‘۔ پی ڈی ایم میں پھوٹ اب نمایاں ہے کہ زرداری صاحب نواز شریف پہ گرجے برسے۔ کہا کہ لوٹ کر آئیں ورنہ استعفوں کا سوال ہی نہیں۔ اپوزیشن میں حقیقی اتحاد کبھی نہ تھا۔ اپنے طور پر اسٹیبلشمنٹ سے سبھی رابطے میں۔ ساجھے کی ہنڈیا اب تو بیچ چوراہے میں پھوٹی ہے۔ ہم نفس وہ کبھی تھے ہی نہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کی تحریک ہی میں یہ واضح تھا۔ پرہیبت ہجوم مگر نو ن لیگ نے ساتھ دیا اور نہ پیپلز پارٹی نے۔ نپولین کا وہی مشہور جملہ: سیاست میں حلیف ہوتے ہیں یا حریف، دوست کوئی نہیں۔ حلیفوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر زرداری پی ڈی ایم کو اپنے پسندیدہ راستے پر گھسیٹ لے گئے۔ سندھ کی بادشاہت عزیز ہے۔ اربوں کے وسائل پہ تصرف وہ ترک کیسے کریں۔ یہ بھی آشکار ہے کہ میاں محمد نواز شریف اور زرداری کے دل ایک دوسرے کے باب میں کبھی صاف نہیں رہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے رسم و راہ میں زرداری صاحب کی غایت یہ ہے کہ مقدمات سے جان چھڑا سکیں اور ان کی اولاد کے لیے سیاست کی راہ کشادہ رہے۔ استعفے وہ کیوں دیں؟خوش دلی سے لانگ مارچ کا ساتھ کیوں دیں؟ اپنے مسائل انہیں حل کرنا ہیں، نون لیگ اور مولانا فضل الرحمٰن کے نہیں۔اب مولانا دل گرفتہ ہیں۔ منگل کو پی ڈی ایم کے لیڈروں نے کہا کہ استعفوں کے باب میں پیپلزپارٹی نے مہلت مانگی ہے۔ مہلت نہیں، اس نے انکار کیا ہے اور اس پر وہ قائم رہے گی۔ لانگ مارچ بھی اب محلّ ِ نظر ہے۔شاید ملتوی ہو جائے۔ عجیب منظر ہے، ہمہ وقت دونوں فریق ایک دوسرے کی کمزوریاں اچھالنے میں لگے رہتے ہیں۔ سامنے کی اس سچائی سے بے خبر کہ زندگی اپنے محاسن پہ بسر کی جاتی ہے، دوسروں کی خامیوں پر نہیں۔ سچائی کی سیدھی، صاف اور اجلی شاہراہ کے سوا سب ہنر وہ آزماتے ہیں، عجیب لوگ!