مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو کچھ بھی نہیں ہوں میں مگر اتنا ضرور ہے بن میرے شاید آپ کی پہچان بھی نہ ہو وہی کہ ایسا تو پھر ہوتا ہے ،مایوس کیوں ہوتے۔حوصلہ کرو پانیوں پر بہار اترے گی، ایک صورت وہاں بنا رکھنا وقت روکے تو میرے ہاتھوں پر اپنے بجھتے چراغ لا رکھنا میڈیا پر ایک واویلا مچا رکھا ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کی غلطی گلے پڑ گئی کمال ہے تھوڑا سینک پہنچا تو بلبلا اٹھے، جب کسی مقصد کے لئے اقدام کیا جاتا ہے تو پھر اس کے نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔پتہ نہیں کس بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ عمران خاں بھی افسوس کر رہے ہیں کہ ان سے اسمبلیاں توڑنے کی غلطی ہو گئی مجھے تو اس بات پر یقین نہیں کہ کشتیاں جلانے والے پھر ایسے بھی پچھتا سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ تماشہ تو پرویز الٰہی نے لگایا کہ ہوئے تم دوست اس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو، ان کی باتوں میں کچھ نکات تھے تو کچھ مزے کی باتیں کہ ان میں حس مزاح بھی ہے آپ کو یاد ہو گا کہ انہوں نے بازو اٹھا کر بھی بددعائیں دی تھیں اور وہ سٹریچر پر دراز تھے، خیر ان کی باتوں سے لطف تو ہم نے بھی اٹھایا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ عمران کو پہلے ہی وارن کر چکے تھے کہ یہ سب کچھ ہو گا ،اس لئے اپنے ہاتھ مت کاٹیے ان کے بقول خاں کے اردگرد تین چار لوگ الٹی متیں دے رہے تھے ،انہوں نے کہا کہ ایک تو ان میں فواد چوہدری ہیں جو گرفتار ہو گئے، انہیں پہلے ہی پکڑا جانا چاہیے تھا تاکہ ہماری حکومت بچ جاتی، کیا کہیں درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا اذیت پسندی بھی ایک چسکہ ہے۔مجھے یاد ہے ثمینہ راجہ کہا کرتی تھی کہ میں کیا کروں کہ اداسی مجھے پسند ہے صرف اک بار اس کی منت کی۔عمر بھر خود کو پھر ملامت کی۔ ویسے کبھی کبھی محبت میں ایسا ہوتا ہے یہ محبت اپنے آپ سے بھی ہو سکتی ہے جسے نرگسیت بھی کہتے ہیں محبت بھی عجب شے ہے کہ جب بازی پہ آتی ہے تو سب کچھ چھین لیتی ہے یا سب کچھ ہار دیتی ہے۔محبت مار دیتی ہے خان صاحب کو ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ وہ گرفتار نہیں ہو سکے۔ان کے ہاتھ سے پہلے ہی کئی گھائل ہو چکے ہیں، ویسے افواہوں کا بازار خوب گرم ہے ،جب طویل فال ڈائون ہوا تو تب بھی ایک افواہ یہ بھی تھی کہ عمران کو گرفتار کیا جا رہا ہے، اس لئے بجلی لمبی بند ہو گئی تاکہ موبائلوں کی بیٹریاں بھی ختم ہو جائیں لیکن شورشرابے کے بعد نکلا کیا مجھے تو ماسٹر عنایت یاد آ گئے کہ اوہنے سانوں ملنے آنا۔سارے شہر دی بتی گئی اے یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بعض اوقات بساط سیاست پر کوئی غلط چال بھی چل سکتا ہے اگر مقصد دشمن کو زچ کرنا اور بے بس بنانا ہو تو اس کے لئے کوئی کیا کر سکتا ہے۔میرا خیال ہے وہی کچھ جو خان صاحب کر رہے ہیں کہ افراتفری پیدا کر کے نظام کو مفلوج کر دیا جائے یہ کوئی نیا انداز بھی پہلے دھرنے میں بھی یہی کچھ تھا کہ چین کے صدر دورہ بھی نہیں کر سکتے تھے۔اب بھی وہی اسلوب سیاست ہے اور یہ بھی ہو جاتا ہے کہ اپنی چلی ہوئی سیدھی چال الٹ پڑ جائے ذوق یاد آئے: کم ہونگے اس بساط پہ ہم سے قمار باز چال ہم چلے سو نہایت بری چلے بات کسی اور طرف نکلتی جا رہی ہے وہ جو ڈالر کو 200روپے تک لانے کا دعویٰ کرتے ہوئے آئے تھے اب عمران خاں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ معیشت کو تباہ کرنے پر قوم سے معافی مانگیں، عمران خاں پر پریشر بڑھتا جا رہا ہے سکیورٹی پر مامور پولیس بنی گالہ سے اور زمان پارک سے ہٹا لی گئی ہے، میں یہ سن کر تو حیران رہ گیا کہ دونوں جگہ ڈیڑھ ‘ ڈیڑھ سو بھی کل تین صد پولیس والے تھے، ایک سوال تو بنتا ہے کہ کیا عوام کے پیسے سے اتنی سکیورٹی جائز ہے شریف برادران پر تو اس سے بھی زیادہ اہلکار ہوتے تھے، انہوں نے تو سی ایم ہائوس بھی چھ سات جگہ پر رکھے تھے، جن میں سے چار تو محسن نقوی نے آ کر بند کئے ہیں، پھر جاتی امرا کی دیوار جو کروڑوں میں بنائی گئی کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ قوم کی دولت کیسے بے دریغ استعمال ہوتی ہے۔خیر یہ تو ایک نقطہ معترضہ آ گیا۔ اس سکیورٹی بنیاد پر یہ خان صاحب ایک نیا بیانیہ چلا دیا اور پورے ملک میں ایک ہیجان پیدا کر دیا ہے کہ زرداری انہیں قتل کروانا چاہتا ہے بلکہ اجرتی قاتلوں کو پیسے بھی دیے جا چکے ہیں خان صاحب کے بیانیوں میں تغیرات بہت ہے۔رجیم چینج پر بھی بیانیے بدلتے آئے ہیں اب یہ ایک اور قصہ جڑ دیا ہے ،ظاہر اس پر پیپلز پارٹی کی طرف سے شدید ردعمل آیا ہے۔حکومت کی طرف سے بھی عدلیہ کو کہا جا رہا ہے کہ اس سنگین الزام کا نوٹس لے دوسری طرف بلاول نے اپنے خدشے کا شدت سے اظہار کیا ہے کہ ان کے والد کے خلاف بے بنیاد اور تغو الزامات سے ان کے خاندان کے لئے خطرات بڑھ گئے ہیں، پیپلز پارٹی کیس کرنے جا رہی ہے کہ ثبوت پیش کئے جائیں،ویسے خان صاحب اپنے لئے خود ہی مسائل پیدا کر رہے ہیں: ہر طرف اک شور برپا اور لوگوں کا ہجوم ہم نے گویا شہر سارا اپنی جانب کر لیا آخر میں مریم نواز کی واپسی اور استقبال پر بھی تو بات ہو جائے کہ وہ ن لیگ کو آس دلانے کے لئے آئی ہیں، کہا تو یہی جا رہا ہے کہ نواز شریف بھی آنا چاہتے ہیں مگر لوگ اسے روٹین کی بات سمجھ کر اب چونکتے ہیں۔ہنستی تو مجھے اس بات پر آئی کہ محترمہ فرما رہی تھیں کہ نواز شریف ہی ملک کو بھنور سے نکالیں گے۔ سوال تو یہ ہے کہ نواز شریف تو پانی میں اترنے سے ہی کترا رہے ہیں پھر وہ بھنور سے کیسے نکالیں گے۔بھنور تو پانی کے اندر ہوتا ہے لوگوں کی تو انتظار میں آنکھیں تھک گئی ہیں۔آخر رکاوٹ کیا ہے میرا خیال رکاوٹ خود شہباز شریف ہیں۔ پاکستان کا منظر نامہ بھی کیسا کمال ہے، لوگ بھوک سے مر رہے ہیں آٹا رسائی سے باہر چکا ہے۔ہر شے زبردست مہنگی سونا دو لاکھ روپے تولہ تک جا پہنچا اور مریم نواز کو سونے کا تاج پہنایا جا رہا ہے۔ حالات لوگوں کو سونے نہیں دیتے، ایسے میں بھی لوگ مریم کا استقبال کر رہے ہیں ،کہنے کا مطلب یہ کہ اگر نواز شریف آتے ہیں، تو وہ کیا کریں گے، وہ کون سا کام کریں گے، جو شہباز شریف نے نہ کیا ہو۔شہباز شریف نے تو اگلی پچھلی ساری کسریں نکال دی ہیں، چلیے اس بات پر ہم ذرا خوش بھی ہو گئے کہ محسن نقوی نے جہاں پروٹول چھوڑا تھا، وہاں اب بھی وہ اور ان کی کابینہ تنخواہ بھی نہیں لے گی۔اچھی بات مگر تیزی وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں۔تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے۔ آخر میں ایک پوسٹ کا تذکرہ کہ جو فاطمہ قمر نے سوشل میڈیا پر لگائی ہے کہ ایک سکول میں اردو بولنے پر ایک بچے کا منہ کالا کر دیا گیا۔ذھن میں رہے کہ پہلے بھی ایسے سکول ہیں جہاں صرف انگریزی ہی ہے اردو بونے پر جرمانہ ہے۔اصل میں یہ ہماری خاموشی ہے کہ ہم نے قائد کے حکم پر عمل نہیں کروایا۔اس لئے سب سے پہلے ہماری بیورو کریسی نے قوم کے منہ پر کالک ملی اور انہیں ان کی شناخت اردو زبان رائج نہیں ہونے دی۔منہ کالا کرنے والے کالے باطن والے لوگوں کو سزا تو ملنی چاہیے۔