میں کیا کہوں اسے کہ مقدر نہیں رہا یا پھر میرے یقین کا پیکر نہیں رہا پیچھے نہ چل سکا میں کسی کے بھی آج تک منزل جسے ملی وہی رہبر نہیں رہا بس وہی کہ چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ۔پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں۔ ویسے فی زمانہ راہبر اور رہزن میں بڑا مہین سا فرق ہے۔ جیسے ذھانت اور پاگل پن کی لکیروں میں کچھ خاص فرق نہیں ہوتا۔زیادہ ذھین و فطین ہی شدید احساس کے باعث ابنارمل ہو جاتے ہیں۔ سیدھی سی داستان ہے اپنے زوال کی دستار رہ گئی ہے مگر سر نہیں رہا۔خوف و ہراس پھیل گیا پورے شہر میں قاتل کی آسین میں خنجر نہیں رہا۔بس یہی کہ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔‘‘ تقرریوں کا جو کام ہونا تھا وہ ہو چکا۔پانیوں میں بڑی طغیانیاں رہیں اور موجوں نے ساحل کے ساتھ بھی سر پٹخا اور آپس میں بھی ٹکرا ٹکرا کر جھاگ بناتی رہیں۔جھاگ کو آخر بیٹھ ہی جانا تھا کیا تماشا سا لگا رہا کہ فلاں یہ چاہتا ہے اور فلاں وہ چاہتا ہے حالانکہ چاہنے والے جانتے تھے کہ ان کے چاہنے یا نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہو گا۔مضبوط ادارے کا اپنا ایک ڈیکورم ہوتا ہے۔ کمزور اور طفیلی لوگ اپنے پالنے والوں سے معاملات طے نہیں کرتے بہرحال یہ اچھا ہے کہ سب متفق ہیں کہ اس میں عدم تعاون کی کوئی گنجائش نہیں۔ آپ کو اگر میری بات میں کاٹ نظر آئے کہ تو یہ وہی کٹائو ہے جو دل پر آیا ہوا ہے۔میر نے کہا تھا: دل کی بربادی کا کیا مزکور ہو یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا ایک نگر ایک دل ہی تو ہوتا ہے ہمارے دل میں تو ایک اور دل ہے جسے لاہور کہتے ہیں وہی سائنس کی بات کہ مرکز کے اندر ایک مرکز ہی میں ہوتا ہے تبھی تو ہم نے کہا تھا۔اک دل بنا رہا ہوں میں دل کے مکین میں، مشکل سے بات بنتی ہے مشکل زمین میں۔ اچانک مجھے میر کا ہی ایک لاجواب شعر یاد آ گیا کہ آج کا بیانیہ لگتا ہے: دیواریں تنی ہوئی کھڑی تھیں اندر سے مکان گر رہا تھا ریاض الرحمن ساغر کا مصرع کہ آئے گا کون ریت کی دیوار تھامنے‘ کیا کروں سخن کی زیبائی کھینچ لیتی ہے۔ یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انسان جانا۔ دل نے کہا کہ غلط اس شعروں میں انسانوں کی بات ہے۔میں ان آزمائے ہوئے سیاستدانوں کی تائید نہیں کر سکتا کہ جو بار بار کہہ رہے ہیں کہ عمران خان سیاست دان نہیں ہیں۔ جناب آپ غلط کہتے ہیں خان آپ سے بڑا سیاستدان ہے ہاں کبھی ایک وقت تھا جب وہ سیاستدان نہیں تھا ۔ وہ اس وقت بالکل بھی سیاست دان نہیں تھا یہی ادا لوگوں کو بھاتی بھی ڈاکٹرز‘ اساتذہ اور انجینئر اور سب مکاتب فکر اس کے بارے میں یکسو تھے وہ سب کے چاہنے کے باوجود ناکام ہو گیا کسی نے اس کے کان میں کہا: وہ بھٹکتا ہے وہی راہ بنا جاتا ہے ورنہ بستی میں کہاں سیدھا چلا جاتا ہے عوامی طاقت کا ڈھونگ صرف رچایا جاتا ہے طاقت کا سرچشمہ کہیں اور ہے پھر اس اکھڑ اور ضدی آدمی کو عقل آ گئی اس کے اندر کا سیاستدان جاگ گیا وہ سیاست دان تھا اس نے اور اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ وہ غلط ٹیم کے ساتھ میچ کھیل رہا تھا یہاں کرکٹ میچ ہاکی ٹیم کے ساتھ اور ہاکی میچ کرکٹ ٹیم کے ساتھ کھیلا جاتا ہے یعنی یہاں الٹی گنگا بہتی ہے وہی حسن نثار کے بقول الٹا لٹکو گے تو سیدھا نظر آئے گا پھر اس نے وہ کر دکھایا کہ سب دیکھتے ہی رہ گئے پھر اس نے یوٹرن کو حکمت بنا دیا ۔ مولانا فضل الرحمن بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے اس نے الیکٹی بلز پر سمجھوتہ کر لیا لوٹوں کا ہار گلے میں ڈالنا بھی قبول کر لیا یہاں بھی محبت اور جنگ کے قوانین اپنا لئے گئے اس کو وزارت عظمیٰ مل گئی اس پر منکشف ہوا کہ خزانہ تو خالی ہے وعدے کیسے پورے ہونگے اب وہ مکمل سیاستدان ہو چکا تھا لوگ اس کے سحر میں تھے۔ پھرمہنگائی بڑھتی گئی اور وہ لوگوں کو حوصلہ دیتا رہا کہ گھبرانا نہیں۔یوں ساڑھے تین سال گزار دیے گئے پھر سب کے کان کھڑے ہو گئے مختصر یہ کہ سب مل بیٹھے اور انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل کر کے اپنے گیئر لگائے اور گاڑی اپنے قبضے میں کر لی۔جو بھی ہوا مگر یہاں بھی عمران خاں ان سے کہیں بڑے سیاستدان ثابت ہوئے۔ وہ اقتدار سے اتر کر بھی سب کے سر پر سوار ہیں۔بیانیہ بنانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں وہ اپنے معاصرین سے بہت آگے ہیں 35پنکچر بھی ان کے مشہور ہوئے تھے جنہیں انہوں نے خود ہی ایک مذاق قرار دے دیا اب کے سازش بیانیہ کو آسمانوں تک پہنچا کر خود ہی جھٹک دیا۔کس کمال سے امریکہ کو آنکھیں دکھائیںاور کس محبوبانہ انداز میں آنکھیں جھکا دی انہوں نے کمال ہوش مندی سے ابتری اور شور شرابا برپا کر کے کچھ اداروں کو بھی دبائو میں رکھا حکومت تو بے چاری دفاع پر ہی رہی عمران خاں کے ساتھ ایک مسئلہ ہوا کہ کچھ قریبی لوگ اس کے اپنے نہیں تھے کسی اور کے تھے ایسے ہی جیسے پنجاب حکومت بھی خان کے نام پر ہے مگر انہیں معلوم ہے کہ پنجاب کس کا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہوئے کھیل رہے ہیں اور وہ ہمیشہ سیاست کو کھیل بنانے میں کامیاب رہے ہیں یہ جو کہا جا رہا ہے کہ 69فیصد لوگ خان صاحب کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں غلط نہیں ہے وجہ یہ کہ آنے والوں نے عوام کو ریلیف تو کیا دینا تھا اس کی زندگی اجیرن بنا دی ہے وہ تو نواز شریف کو واپس نہیں لا سکے بلکہ نواز شریف کے جانے میں ہی ان کا ہاتھ نہیں تھا۔آخری بات یہ کہ عوام کے لئے مشکلات پیدا کر کے نقصان اٹھائیں گے عوام تنگ آ کر کسی کو چھوڑ دیتے ہیں۔ایک شعر: تجھ کو کچھ تو بنا دیا ہے ہم نے تھوڑا سا دھیان دے کر