بچوں کا قتل کئی اور طریقوں سے بھی ہوتا ہے‘ جیسے کہ اغوا۔ماں باپ کی آغوش سے ہمیشہ کے لیے محروم کر کے ان کی روح قتل کردی جاتی ہے۔ چائلڈ لیبر کے لاکھوں پوائنٹ ہیں اور ہر پوائنٹ روح کا مقتل ہے۔ یہ مزدور بچے بچپن ہی میں بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان چائلڈ لیبر کے حوالے سے ٹاپ آف دی لسٹ کے ممالک میں شامل ہے۔ یتیم خانے ایک اور دردناک باب ہیں۔ چارلس ڈکنز کے ناول اولیور ٹوسٹ میں ایک جھلک اس محروم زندگی کی ملتی ہے (درجن بھر سے زیادہ فلمیں اس پر صرف انگریزی میں بن چکی ہیں۔ رومانیہ میں جب چائو ستنکو نامی شیطان حکمران تھا تو یتیم خانوں کی حالت بیان کرنے کے قابل نہیں تھی۔ جب اس کی حکومت ختم ہوئی تو یتیم خانوں میں لاکھوں ایسے بچے ملے جو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے تھے‘ ہزاروں پاگل ہو چکے تھے اور نہ جانے کتنے مر گئے یا مار دیئے گئے تھے۔ اقوام متحدہ نے ان یتیم خانوں کو روحوں کا مذبح (سلاٹر ہائوس) قرار دیا تھا۔ بہت سے بچوں کو نئی حکومت نے محفوظ اور باعزت زندگی دی لیکن وہ اب بھی نفسیاتی مریض ہیں۔ ٭٭٭٭٭ بچوں کے بارے میں رومن اور یونانی تہذیب بہت شاک تھی۔ یہ لوگ اولمپیئن پہاڑ پر رہنے والے دیوتائوں اور دیویوں کی پوجا کرتے تھے اور باقاعدگی سے بچوں کو قتل کر کے ان کا خون ان کی نذر کرتے تھے اور ایسا ریاستی طاقت کے بل بوتے پر کیا جاتا۔ بچوں کو زبردستی ان کے گھروں سے اٹھا لیا جاتا۔ سیارٹا میں ڈائنا (یاڈیانا) کے مندر پر بچوں کا قتل کبھی رکا ہی نہیں۔ ایک مورخ گروئیسن کا کہنا ہے کہ ہر روز بچے قتل کئے جاتے۔ وینس (زہرہ) دیوی کا بڑا مندر پہاڑ کی چوٹی پر تھا۔ سینکڑوں بچے بوریوں میں بند کر کے مندر لائے جاتے پھر پہاڑی کی چوٹی سے نیچے پھینک دیئے جاتے۔ بہت سے دیوتائوں کی قربان گاہوں پر بچوں کو لوہے پتھر سے کچلا جاتا اور ان کا خون بھینٹ کیا جاتا۔ ایک مورخ کے مطابق کارتھیج میں مولکھ دیوتا کی قربان گاہ پر ایک ہی روز دو سو بچے ذبح کئے گئے۔ ٭٭٭٭ لبنان کا مشہور اور بے رحم فلسفی افلاطون بچوں کے قتل کا بہت بڑا مبلغ تھا۔ اس کا قانون یہ تھا کہ کمزور‘ بیمار اور معذور بچوں کو قتل کردینا ان کے ماں باپ پر واجب ہے۔ ارسطو بھی اسی قانون کا موید تھا۔ امپائر میں ایک قانون یہ بھی تھا کہ ماں باپ اپنے کمزور‘ کند ذہن‘ بیمار یا ناپسندیدہ بچوں کو جنگلوں میں چھوڑ کر آئیں جہاں وہ مر جاتے اور بہت سے ماں باپ اس قانون پر برضا عمل کرتے تھے۔ یہ تمدن یونان سے دوحا تک پوری پوری روما تک پوری پوری رومن امپائر میں پھیلا ہوا تھا، البتہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے جن حصوں پر رومن امپائر قائم تھی‘ وہاں اس کے شواہد نہیں ملتے۔ ٭٭٭٭٭ جادو ٹونے کے لیے بچے پوری دنیا میں قتل ہوتے رہے ہیں لیکن پاکستان‘ بھارت اور افریقی ملکوں میں یہ رسم اب بھی قائم ہے۔ افریقہ سے مراد وہ ملک ہیں جو صحرائے اعظم کے جنوب میں واقع ہیں۔ یہاں خاص رنگت اور نقش و نگار کے بچے جادو ٹوانے کے لیے اغوا کر لیے جاتے ہیں بلکہ دن دیہاڑے ماں باپ سے چھین لیے جاتے ہیں اور ان کے اعضا الگ الگ کر کے الگ الگ قسم کے جادو ٹونے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔ سیاہ فام افریقی اقوام میں سرخ رنگت کے بچوں کو البینو (Albino) کہا جاتا ہے اور یہ دنیا کے بدقسمت ترین بچے ہیں۔ اب قانون سازی ہورہی ہے تاکہ ان کی حفاظت کی جا سکے۔ اسی طرح ایتھوپیا (حبشہ) میں کارا قبائل میں ان بچوں کو قبیلے کی پنچایت قتل کر دیتی ہے جو دو سال کی عمر میں پہنچیں اوران کے اوپر والے دانت پہلے نکلیں۔ ایسے بچوں کو MINGI (منگی: لعنت زدہ) قرار دے دیا جاتا ہے۔ اب حکومت نے بعض علاقوں میں یہ رسم ختم کردی ہے لیکن کئی علاقوں میں اب بھی یہ قتل عام جاری ہے۔ بعض دیہات میں ہر روز ایسے کئی بچے منہ میں ریت ڈال کر قتل کردیئے جاتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ یہ معصوم فرشتے درد ناک موت کے بعد کہاں جاتے ہیں؟ قرآن پاک میں ذکر نہیں لیکن احادیث موجود ہیں۔ یورپی ادب کی روایات میں ایک خوبصورت روایت یہ ہے کہ بچے اور جانور معصوم ہوتے ہیں اس لیے مرنے کے بعد ان کے لیے ایک پل قوس قزح کا بنتا ہے۔ جسے یہ عبور کرکے جنت کے باغ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ قوس قزح کے پل کے اوپر تتلیاں اور پرندے رقص کرتے ہوئے اڑتے اور دائیں بائیں پھول کھلے رہتے ہیں۔ بائبل میں حضرت یسوعؑ کی زبان سے بہت خوبصورت فقرے ملتے ہیں۔ سموئیل کی کتاب میں بھی حرف ہائے تسلی موجود ہیں۔ ایک معنی خیز فقرہ بھگودگیتا میں ہے۔ بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بچو‘ زندگی کی پروا مت کرو‘ بے خوف ہو جائو۔ روح پیدا ہوتی ہے نہ مرتی ہے (ادھیائے 2۔ اشکوک 20) بچے غیر مسلموں کے ہوں تو ،مسلمان علما نے متضاد دعوے کئے ہیں اور اکثر حیران کن۔ مسلمان علما نے روح کے بارے میں کچھ خاص بحث نہیں کی۔ شاید اس لیے کہ قرآن پاک میں روح کا ذکر ’’من امر ربی‘‘ پر ہی اکتفا کیا گیا ہے لیکن یہ اکتفا مناہی تو نہیں ہے۔ امام غزالی کا رسالہ حقیقت روح انسانی قربان و فلسفے کی بحث ہے۔ صوفیا حضرات کی تشریحات نقل و عقل سے زیادہ وجد اور وجدان کا معاملہ ہیں۔ امام ابن قیم کی کتاب الروح اور سیوطی کی تذکرہ الروح میں برزخ سے متعلق روایات اور کثیر تعداد میں خوابوں کا ذکر ہے۔ ویدوں‘ گیتا اور بعض دیگر ہندو مذہبی کتب میں تفصیلی اور توجہ طلب بحث موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بنیادی طور پر یہ الہامات تھے۔ مرور زمانہ نے کمی بیشی بھی کر دی اور بدلائو بھی۔ (بھگودگیتا دراصل لو کی مستقل کتاب نہیں‘ یہ مہا بھارت کا حصہ ہے اور اس مکالمے پر مشتمل ہے جو سری کرشن جی نے پانڈئووں کے شہزادے ارجن سے کیا تھا۔ اس جنگ میں سارے کورد مارے گئے تھے) (ختم شد)