دلوں کے ساتھ یہ اشکوں کی رائیگانی بھی کہ ساتھ آگ کے جلنے لگا ہے پانی بھی ہوا ہے عشق تو تھوڑا سا حوصلہ بھیمیاں کہ حسن رکھتا ہے تھوڑی سی سرگرانی بھی بات ذرا سی سمجھنے کی ہے کہ اونچی اڑان کے لیے ہوا بھی ضروری ہے۔ پیراکی کے جوہر دکھانے کے لیے پانی تو اشد ضروری ہے۔ بچا رہے ہو ہوائوں سے تم چراغ مگر۔ ہوا کے بعد کہاں اس کی زندگانی بھی۔ بات یہ ہے کہ اس وقت تعمیر کی صورت کم اور تخریب کا عمل جاری ہے بلکہ یوں کہیں کہ ان کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ یہ انا بھی حسد کی طرح بری چیز ہے کہ اپنے ہی سامنے دیوار اٹھا دیتی ہے اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ باخدا کہتا ہوں کہ ایسے ہی لگتا ہے کہ سب اپنے اپنے مفادات کے گھوڑوں پر سوار سب کچھ پائمال کرنے جا رہے ہیں۔ اس میں آئین اور قانون تو چھوڑیئے کسی کی عزت اور آبرو تک محفوظ نہیں۔ ایک طرف سورۃ الحجرات میں اللہ کی تنبیہ اور ہدایت اور پھر ماہ مکرم مگر نہیں شاید یہ ہمارا مسئلہ ہی نہیں رہا۔ رمضان شریف میں بھی سب کھلے پھر رہے ہیں۔ اسمبلی کے فلور پر اخلاق باختہ زبان اور پھر ستم یہ کہ اس پر تالیاں اور بجتے ہوئے ڈیسک۔ اکثر ستر کے پیٹے میں کیا لے کر جائیں گے۔ چھوڑیئے سب بہت تلخ ہے۔ میں اس بدترین دور میں بھی مایوس نہیں ہونا چاہتا کہ ابھی کہیں کہیں اچھائی بھی نظر آتی ہے خواہ چھوٹی سطح پر ہی کیوں نہ ہو۔ وہ بھی تاریکی میں جگنو کی طرح نظر آتی ہے: ایک جگنو ہی سہی ایک ستارا ہی سہی شب تیرہ میں اجالوں کا اشارہ ہی سہی میں تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ایک کالونی کا جس کے لوگوں نے تہیہ کر لیا کہ اسے سنوارنا ہے۔ ہم اس سوچ کو پھیلا کر اور بھی لے جا سکتے ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ ہماری سرکردہ پارٹیاں تو بے بہا پیسہ اس بات پر خرچ کر رہی ہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف مذموم پراپیگنڈا کیسے کرنا ہے۔ گند اور فحش سلسلہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ قوم کے نوجوان سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف گند اچھالنے کے لیے لے رہے ہیں کہ اب یہی روزگار رہ گیا ہے۔ تو صاحبو! میں ذکر کر رہا تھا ایک کالونی کا جس کا نام مرغزار کالونی ہے۔ وہاں ایک مقامی تنظیم بنائی گئی۔ فلاح مرغزار تنظیم۔ اس کے روح رواں کچھ شریف النفس لوگ تھے۔ مقصد یہ تھا کہ کالونی کے بہت ہی برے حالوں پہنچ چکی تھی۔ قبرستان تک کی جگہ بھی متعلقہ لوگوں نے بیج دی۔ مسجد کے لیے مختص پلاٹ لیا کسی نے ہضم کرلیا تھا۔ بس پر کیا تھا کچھ اچھے لوگوں نے قدم اٹھا لیا چونکہنیت بہت صاف تھی اس لیے قدرت نے مہربانی کی اور انہیں ایک سر پھرا ایماندار شخص چودھری محمد شہزاد چیمہ کی صورت میں مل گیا۔ مختصر یہ کہ اس نے کسی سے کوئی وعدہ نہیں کیا مگر کام پر کمربستہ ہوگیا۔ میں نے عمران خان کو بھی لکھا تھا کہ ایسے لوگ ڈھونڈے جو اس طرح سے کام کروائے۔ دلچسپ بات یہ کہ اس وقت جس تیسرے الیکشن میں چودھری شہزاد چیمہ نے ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے مخالف امیدوار کے پیچھے حکومتی اور اپوزیشن کے سرکردہ لوگ تھے۔ مگر بات وہیں آتی ہے کہ جب اہل علاقہ فیصلہ کرلیں تو پھر سب کچھ درست ہو جاتا ہے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ چیمہ صاحب اپنے چھ سال پورے کر چکے تھے یعنی دو سیشن کی اجازت ہے۔ مگر اہل علاقہ نے کوآپریٹو تک رسائی کر کے ان کے قانون میں ترمیم کروائی اور اگلے تین سال کے لیے پھر شہزاد چیمہ ہی کو اپناصدر منتخب کیا۔ ترمیم رکوانے کے لیے کیا کیا جتن نہ کئے گئے مگر عوام کی طاقت ہی اصل طاقت ہوتی ہے۔ اب کے بھی چیمہ صاحب نے مخالف امیدوار سے چار گنا ووٹ حاصل کئے۔ لوگوں نے مخالف کو رد کردیا۔ کالونی کی ایک زبردست انٹری بنوا کر اس کا نام ختم نبوتؐ گیٹ رکھا گیا۔ کئی اور کام ہیں مساجد کی طرف بہت توجہ دی گئی۔ یہ سب چیزیں سب کے سامنے تھیں۔ پھر ایسے میں قانون میں ترمیم بھی ہو جاتی ہے۔ میرے پیارے قارئین! یہ تذکرہ ضروری تھا کہ لوگ اس کو مثال پکڑیں۔ میں اسی تعمیری کام کے باعث شہبازشریف کا بھی گرویدہ رہا کہ جو بھی میرے ملک کو سنوارے گا وہ ہمیں اچھا لگے گا۔ ایک اور بات میرے ذہن میں آئی کہ اب لوگوں کو شعور مل چکا ہے کہ اپنا کام خود ہی کروانا پڑے گا۔ حکومت پر انحصار نہیں کرنا۔ اس میں جماعت اسلامی پہلے نمبر پر ہے گھر گھر جا کر انہوں نے کنونسنگ کی۔ یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ وہ اپنے کام سے کس قدر مخلص ہوتے ہیں۔ فلاح مرغزار کے لوگوں کو کچھ کچھ میں جانتا ہوں۔ چند نام میرے ذہن میں ہیں۔ ڈاکٹر ناصر قریشی‘ ملک شفیق‘ اورنگزیب‘ ندیم خان‘ ملک سعید‘ غلام عباس جلوی‘ سعید خان‘ رانا سہیل اور حنیف صاحب بہرحال چھتری نشان کے ساتھ فلاح مرغزار پینل جیت گیا: سینے سے لگائوں گا محبت میں سبھی کو دشمن بھی اگر آئیں میری چھتری کے نیچے میں نے اس کامیابی کے پیچھے ایک چیز دیکھی جو بہت نمایاں تھی کہ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک روا رکھا گیا۔ لڑائی جھگڑے انصاف کے ساتھ نمٹائے جاتے۔ زبردستی نہیں چل سکتی تھی کہ شہزاد چیمہ قانونی جارہ جوئی میں بے مثال رہے۔ کوئی قبضہ کیس نہ چل سکا۔ میں کچھ باتیں تو بھول ہی گیا کہ پینے کا صاف پانی مہیا کیا گیا۔ پلانٹ لگے‘ آپ کو بنیادی بات بتائوں کہ نبی پاکؐ کی حدیث کا مفہوم بھی ہے۔ فلاح دین ہے۔ ہمارا اسلام فلاحی ریاست کی بات ہی تو کرتا ہے۔ یہی دنیا کو دینی بنانے والی بات ہے اور پھر خدمت سے خدا ملتا ہے۔ سیاست کو کاروبار بنانے والو کچھ اپنی عاقبت کا بھی سوچو۔ میں چیمہ صاحب کی اس بات پر کالم ختم کرتا ہوں کہ وہ مجھے بتانے لگے کہ جب میں پارکوں میں لوگوں سے خاص طور پر بزرگوں سے ملتا ہوں اور ان سے مسائل کے بارے میں پوچھتا ہوں تو وہ دعائیں دینے لگتے ہیں۔ بس میں اس لیے کام کرتا ہوں: ان کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں دیکھا جاتا کتنے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے