فلسطین میں جلتے مرتے بچو! آگ اور بھوک میں پلتے بچو! لحظہ لحظہ موت کا ایندھن بنتے بچو! درجنوں مسلم ملکوں کے اربوں مسلمانوں کے جرمِ ضعیفی کی سزا بھگتتے بچو! آپ پہ ہونے والے مظالم کی طرف ہم بعد میں آتے ہیں۔ پہلے ذرا ہمارے کچھ سوالات، حالات اور مجبوریاں سمجھ لو۔ سب سے پہلے تو ہم آپ سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ آپ پوری دنیا چھوڑ کے اس فلسطین جیسے متنازع اور غریب ملک میں پیدا کیوں ہوئے؟ ویسے تو موجودہ حالات میں پیدا ہونے کے لیے تمھیں کسی ترقی یافتہ بلکہ طاقتور ریاست کا انتخاب کرنا چاہیے تھا اور اگر آپ کا کسی مسلم گھرانے میں پیدا ہونا ایسا ہی ضروری تھا تو آپ تھوڑی سی ہمت کر کے عرب کے کسی شیخ، قطر کے کسی امیر، اُردن کے کسی شاہ، دبئی کے کسی عالی جاہ… کچھ نہیں تو ہمارے ہاں کسی وڈیرے، کسی بزنس ٹائیکون، کسی سیاسی، عدلی، عسکری یا بیوروکریسی کے کسی پھنے خاںکے گھر میں پیدا ہو جاتے۔ پیدا ہونے سے پہلے ہی ڈاکٹروں اور نوکروں کی فوجِ ظفر موج آپ کے آگے پیچھے ہوتی۔ ماتحتوں کا ایک لشکر آپ کی بلائیں لینے کے لیے قطار اندر قطار کھڑا ہوتا۔ آسانیوں، جولانیوں کا ایک وسیع سلسلہ آپ کا منتظر ہوتا۔ مبارک سلامت کے تانتے بندھتے۔ دودھ کی جگہ قوم کا خونِ جگر پینے کو ملتا۔ غیر ملکی زبان میں گِٹ مِٹ کرتی نرسیں آپکے ناز اٹھاتیں۔ ذرا سا ہوش سنبھالتے ہی ہوٹر بجاتی سرکاری گاڑیاں، سرکاری سکولوں پہ لعنت بھیج کے اَخنے مَخنے اداروں میں چھوڑنے اور لینے جاتیں۔ تمھارے باپ دادا کا ہم عمر ڈرائیور آگے پیچھے بِچھ بِچھ جاتا۔ جوں ہی کچھ پر پُرزے نکالتے، پہلی فرصت میں آپ کو اس ڈسٹی ڈرٹی ملک، جاہل لوگوںسے کوسوں دُور تمھارے اصل دیس روانہ کر دیا جاتا، جہاں کوئی لگژری فلیٹ، کوئی پُرتعیش جزیرہ، کوئی لش پش سرے محل ، اَڈیاں چُک چُک کے تمھارا استقبال کرتا۔ دنیا بھر کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں ترجیحی بنیادوں پر داخلہ ملتا۔ بلوغت کی حدود میں قدم رکھتے ہی اس ملک کی شہریت پالتو کتے کی طرح تمھارے پاؤں چاٹتی۔ اب تم کہو گے کہ یہ سب کچھ تو ہمارے بس میں نہیں تھا لیکن ذرا سوچو یہ تو تمھارے بس میں تھاکہ اگر ایک خوف ناک سرزمین پہ پیدا ہو ہی گئے تھے تو طاقتور ہمسائے سے بنا کر کر رکھتے، دَڑ وَٹ کے وقت گزارتے… کیا کہا! وہ ہمسایہ بڑا زہریلا، خطرناک اور ظالم ہے۔ تمھیں ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے۔ تم بھی کتنے بھولے ہو، تمھیں پتہ ہونا چاہیے کہ بھینس ہمیشہ لاٹھی والے کی ملکیت ہوتی ہے۔ ہمارے دیہاتوں میں کہا جاتا ہے: ’’تگڑے دا سَتیں ویھ سَو‘‘ تم تو پھر بھی ایک غیر مذہب والے بظاہر ایک مہذب ملک کی ہمسائیگی میں ہو، ہمارے تو اپنے ملک میں لاکھوں کروڑوں عوام وڈیروں، سرمایہ داروں کی ذلیل رعایا بن کے ’مزے سے‘ زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے کئی تنوع، تناؤ اور ترقی پسند شعرا نے ان مزدوروں، کسانوں، ہاریوں کو یہ کہہ کہہ کے بہتیرا اُکسانے کی کوشش کی کہ: اُٹھ اُتاں نوں جَٹا، مردا کیوں جاناں ایں لیکن مجال ہے جو انھوں نے اُٹھنے یا اُکسنے کی کوشش کی ہو۔ اس لیے کہ ان میں ڈاہڈے کا سامنا کرنے کی ہمت نہ تھی۔ اس کے بعد آپ یقیناً خدا کی بات کریں گے لیکن آپ کو کیسے بتائیں کہ ہمارے ہاں ’رَب نیڑے یا گھسُن‘ کے فارمولے پہ عمل کرتے ہوئے آسمانی خدا کی بجائے بالعموم زمینی خدا کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ ویسے بھی اب آپ سے کیا پردہ! سیانے کہتے ہیں کہ انسانی ہاتھ صرف ایک سمت میں اُٹھ سکتا ہے۔ اسے بھوک، بھیک اور کاسہ لیسی کی خاطر بڑھا لیں یا تھپڑ کی صورت اٹھا لیں، یہ ہاتھ ایک وقت میں دونوں طرف اٹھنے کی سکت نہیں رکھتا۔ کیا کہا! آپ کو O.I.C پہ بڑا بھروسا تھا کہ یہ متحدہ اسلامی لشکر تمھاری مدد کو ضرور آئے گا۔ میرے بھولے بچو! آپ کو سمجھنے میں غلطی ہو گئی۔ وہ تنظیم تو ہم نے ہر شدید واقعے، حادثے یا سانحے کے بعد ’Oh I See‘ کہنے کے لیے رکھی ہوئی ہے۔ اس ہاتھ کے بلند ہونے کے راستے میں بھی کئی سلامیاں، کئی اجازتیں، حائل ہیں۔ ویسے تو ہمارے پاس مذہبی جماعتوں کے عسکری، جہادی جتھے بھی قطار اندر قطار موجود ہیں، جنھیں دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کا بہت خیال ہے اور وہ ان کے نام پہ چندہ مانگنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں لیکن ان کی بات نہ کرنا، وہ ہم نے سینت سنبھال کے، اپنے مفادات کو نظر انداز کرنے والی حکومتوں کے خلاف دھرنا دینے اور انصاف کا ڈھنڈورا پیٹتی عدالتوں کا تراہ نکالنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں… ان سب امور کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے بڑے آقا… ، جن سے اپنے گل چھروں، اپنی اولادوں کے مستقبل کے لیے انھی کے دیس میں جائیدادیں وغیرہ خریدنا ہوتی ہیں۔ پھر ہمارے اپنے بچے بھی انھی کے دیسوں میں بظاہر زیرِ تعلیم مگر اصل میں ہماری تابع داری کے عوض گروی رکھی ہوتی ہیں اور ظاہر ہے یہ بچے ہمیںتم سے زیادہ عزیز ہیں۔ اگر یہ تمام امور حل ہو جاتے ہیں تو یقین کریں ہم آپ کی مدد کے لیے دل و جان سے تیار ہیں۔ اپنے حق میںہمارے دو ٹوک بیانات تو آپ اب بھی سن رہے ہوں گے۔ اگر نہیں سنے تو ذرا ہمارے سرکاری اور لوکل چینل ٹیون کرکے دیکھیں ، اس میں ہر گھنٹے بعد نشر ہونے والے خبرنامے میں ہم آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ کئی بار تو نظر بچا کے ہم نے اسرائیل کے اقدامات کی مذمت بھی کی ہے۔ اگر کبھی تم ہمارے اخبار دیکھو تو وہ تمھاری حمایت میں سیاست دانوں کے بیانات اور تمھارے لیے مالی امداد اکٹھی کرنے کے اشتہارات سے لبالب ہیں۔ یقین کرو ہماری ایسی ایسی سندر اداکارائیں روز خوبصورت تصویر کے ساتھ اسرائیل کی مذمت کرتی ہیں کہ پِتّا پانی ہو جاتا ہے۔ فی الحال ہم تمھاری کوئی اور خدمت تو نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں پہلی فرصت میں کچھ مقبول لیڈروں کو نشانِ عبرت بنانا ہے۔ کچھ ایسے مفرور لوگوں کو ہیرو جتانا ہے، جنھوں نے اقتدار کی ملائی ملتے ہی اپنے ہمسایوں سے بہتر تعلقات بنانے کے جتن کرنے ہیں، ان سے بگڑے یا بگاڑے ’تجارتی‘ مراسم بحال کرنے ہیں۔ پھر ابھی پندرہ روز لہور لہور اے‘ میلہ بھی لُوٹنا ہے۔ ہمیں جیسے ہی کمیشن، مشن، کِک بیکس، خوشامد، کاسہ لیسی کیلئے کی جانے والی آنیوں جانیوں سے فرصت ملتی ہے، ہم آپ کی طرف دیکھتے ہیں، ہمیں آپ کا کام یاد ہے!!! فی الحال ہم ایک دردِ دل رکھنے والے پنجابی شاعر پروفیسر محمد اکرم سعید کی یہ نظم تمھاری نذر کر سکتے ہیں: زورا وَرو! اَج ہتھ تہاڈا اُتّے اَنھی گونگی دنیا نوں آکھ کہانی دہشت دی تُساں مارو ساڈے بچے اساں مریے وی تے جھوٹے تُساں مارو وی تے سچے پیارے بچو!آخر میں آپ کو سچ بتاؤں کہ حق بات پہ ڈٹنے والوں کا ہمارے ہاں بھی یہی حال ہے!!!!!