حال ہی میں ایک مشہور زمانہ دانشور نے جمہوریت کے لتِے لیے ہیں۔ فرمایا ہے ہے کہ اسکی بساط لپیٹ دی جائے اور جو اس کا نام لے اسے نہ صرف گولی ماردی جائے بلکہ گولی کی قیمت بھی اسکے ورثا سے وصول کی جائے۔ ہونا تو چاہیے اس طرح کی سوچ رکھنے والوں کو یا تو پرانے زمانے کی طرح سرکاری خرچے پر حجاز مقدس بھیج دیا جائے یا پھر انہیں چلہ کشی پر مجبور کردیا جائے کہ ایسے خیالاتِ نرینہ مفاد عامہ کے خلاف ہیں۔ لیکن اس معاشرے میں بڑی سکت ہے ، بہت کچھ برداشت کر جاتا ہے ، ایسے نابغہ روزگار لوگوں کو فکری مغالطے ، جو ایک ہمارے معروضی حالات کے پیشِ نظر بالکل فطری ہے، کا فائدہ دے کر برداشت کرلے گا۔ ہم اس جنریشن سے تعلق رکھتے ہیں جو نوے کی دہائی میں سنِ شعور کو پہنچی۔ افغانستان میں ہونے والے جہاد کی تپش اس وقت یہاں پہنچ چکی تھی۔ لاہور اور لاڑکانہ آمنے سامنے تھے۔ ایک پارٹی برسراقتدار آتی اور دوسری اسکی بنیادوں میں پانی انڈیلنے پر لگ جاتی۔ آئینی حربوں اوراحتجاج کے ذریعے مدمقابل کی سانسیں اکھاڑ دی جاتیں اور ملک قبل از وقت انتخابات کی طرف دھکیل دیا جاتا۔ یہ شیطانی کھیل مشرف کے اقتدار پر منتج ہوا۔ میثاق ِجمہوریت کے ذریعے سدھار کا موقع ملا لیکن جمہوری نظام کے ثمرات کوعوام تک پہنچانے کی بجائے انہیں اشرافیہ کی باندی بنا ڈالا گیا۔ اب اگر کچھ لوگ جمہوریت ہی کے خلاف ہوگئے ہیں تو ان کا قصور نہیںکہ جمہوریت کی آڑ میں کچھ اور کھیل کھیلے جارہے ہیں۔ الزام دیں تو جہالت کو جو صدیوں کی بیرونی تسلط کی وجہ سے ہمارے ہاں در آئی ہے۔ آزادی کے پچھتر سال بھی اس کی تاریکی دور کرنے میں ناکام ہیں کہ آزادی کا تصور ہی داغدار کردیا گیا ہے۔ سامراج کے پٹھو حب الوطنی کو عشق کے دائرے میں داخل ہی نہیں ہونے دے رہے۔ فکری الجھنیں ایسی کہ حق و سچ کی پہچان کے قابل ہی نہیں رہیں۔ ایک ملک جو جمہوری طریقے سے وجود میں آیا ہو وہاں جمہوریت کی ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ جمہوریت کوئی آسمان سے اترنے والا صحیفہ نہیں ہے۔ یہ انسانوں کا تخلیق کردہ نظام ہے جو اقتدار میں آنے اور اس سے رخصت کا پرامن راستہ متعین کرتا ہے۔ جمہوری نظام فیصلہ سازی اور احتساب کا نظام دیتا ہے تاکہ حکمران راہ راست پر رہیں اور انہیں یاد رہے کہ انہیں عوام نے منتخب کیا ہے۔ جمہوریت کے ثمرات سمیٹنے کے لیے اس کی تین شرائط پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اول، اقتدار اعلیٰ کا منبع عوام ہیں۔ دوم، تمام شہری بلا تفریق رنگ، نسل اور عقیدے کے برابر ہیں۔ سوم ، علاقائی تجارت پر کوئی قدغن نہیں ہوگی۔ آئین اٹھا کر دیکھ لیں، خارجہ پالیسی پر نظر ڈال لیں، ہم جمہوریت کے نام پر کہیں اور ہی نکل گئے ہیں۔ اگر ہم ریاست کانصب العین ہی یہ طے کردیں کہ اس نے کسی ایک مذہب، فرقے اور نسلی گروہ سے تعلق رکھنے والوں کی فلاح وبہبود پر توجہ مرکوز رکھنی ہے تو اصول مساوات کی خلاف ورزی اور شہریت کے عالمی تصور کی نفی ہوگی۔ بڑ ے فخر سے کہاجاتا ہے کہ پاکستان اسرائیل کے بعد دوسری نظریاتی ریاست ہے۔ ایسا کہتے ہوئے لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے۔ ہمارے ہاں نسلی گروہوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ اس خطے میں تین بڑے مذاہب کی پرورش ہوئی ہے۔فرقہ واریت، قبائلیت اور برادری ازم ۔ نسلی، لسانی اور ثقافتی طورپر متنوع ملک میں جمہوریت ایک نہایت ہی مناسب نظام حکومت ہے بشرطیکہ اس کے لوازمات پورے ہوں۔ اگر صدیوں کی غلامی کے بعد آزادی نصیب ہوہیگئی تھی اور ساتھ ہی ایک نظام حکومت بھی مل گیا تھا تو ہمارا فرض تھا کہ اس کی بنیادیں مضبوط کرتے۔ یعنی اسے ایک حقیقی ریاست بنانے کی کوشش کرتے نہ کہ الجھنوں میں پڑ کر اسے انتشار کے راستے پر ڈال دیتے۔ پانچ دریائوں کی سرزمین سدا سے شاد و آباد ہے۔ پہاڑ، وادیاں، سرسبز میدان اور چار موسم۔ وہ تمام وسائل اور عوامل میسر ہیں جہاں انسانی آبادی پھل پھول سکتی ہے اور ریاست وجود میں لائی جا سکتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے ،کئی تہذیبیں یہاں پروان چڑھیں اور موسمی تغیرات یا پھر بیرونی یلغاروںکی بھینٹ چڑھ گئیں۔ گنگا جمنا یا پھر بھارت اسے ہمیشہ ہڑپ کرنے کے درپے رہا ہے کہ وسط ایشیا، جو کہ بیرونی تجارت کا سب سے بڑا وسیلہ تھا ،اس میں وادی سندھ ، ایک علیٰحدہ شناخت اور ریاستی ڈھانچہ کے ساتھ، سد راہ تھی۔ جو سوال حالیہ تقسیم سندھ کے وقت اٹھا تھا یہی سوال دوہزار سال پہلے بھی اٹھا تھا جب یہاں کے نئے باسیوں نے براہمنی سماج کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا اس استدلا ل کے ساتھ کہ وہ بدھ مت کی پیروی کریں گے۔یوں رائے شہنشاہیت پروان چڑھی جو آٹھویں صدیں کے اوائل میں پئے درپئے عرب حملوں سے زمین بوس ہوئی۔ حیرت کی بات ہے کہ آدھا ملک گنوانے کے بعد بھی ہمارے پالیسی ساز اس خطے کی شاندار تہذیب کو اجنبی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ایک طبقہ تو اس بات کا بھی انکاری ہے کہ کبھی یہاں ،عربوں اور پھر وسط ایشیائیوں کی یلغار سے پہلے ،بھی کسی ریاست کا وجود تھا۔ اس بات سے بھی انکاری ہیں کہ یہ خطہ گنگا وجمنا وادی (بھارت) سے علیٰحدہ پہچان اور شناخت رکھتا ہے۔ مطلب، یہ فکری الجھن ایک حقیقت ہے اور اسے سلجھانے کی ضرورت ہے۔ تہذیبی تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں آج بھی انہیں سوالوں کا سامنا ہے جو صدیوں پہلے ہمارے علیٰحدہ وجود اور پہچان کے خلاف اٹھائے گئے۔ ہمیں جب بھی شکست ہوئی فکری انتشار اور الجھنوں کی وجہ سے ہوئی جو ان بیانیوں کا نتیجہ تھی جو ہمارے ہاں دانستہ پھیلائے گئے۔ ہمارے پاس راستہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ یا تو ہم امن و آشتی کے آفاقی اصولوں پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو ایک منظم معاشرہ بنائیں اور اپنی تہذیب کی روشنی کو دنیا بھر میں پھیلائیں یا پھر بدگمانی ، لالچ اور خوف کا شکار ہوکر بیرونی تسلط اور جہالت کی تاریکیوں میں گم ہوجائیں۔ یہ راستہ اب بھی کھلا ہے۔