اپنا مزاج کار بدلنے نہیں دیا دل نے کوئی نظام بھی چلنے نہیں دیا گریہ کیا تو آنکھ میں بھرتا گیا دھواں دل نے متاع درد کو جلنے نہیں دیا آج تو مزاج پر بات ہو گئی۔ آپ اسے طبیعت کہہ لیں‘ فطرت کہہ لیں یا کچھ اور۔ وہی جو ہم پڑھتے آئے ہیں کہ سرتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔ یا پھر غالب نے کہا تھا جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد، پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔ غالب کی شوخی اپنی جگہ مگر بات سنجیدہ انداز میں بھی ہو سکتی ہے۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں انداز اور بیان کا رواج نہیں اور کہنے کا یار ابھی نہیں۔ لیکن مجھے تو بات کہنی ہے کہ اس میں فرانی اور دانش و حکمت ہے۔ شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات۔ہم میں نہ وضعداری رہی ہے اور نہ برداشت۔ نہ کسی کا خیال رہا اور نہ لحاظ۔ تو صاحبو! آج دل میں عجب سمائی کہ کچھ تفکر اور گیان کی بات کرلیں۔ ہوا یہ کہ ایک آیت مبارکہ حمید حسین نے کھولی۔ میں تو اس کا مفہوم ادا کروں گا کہ جب مجرموں کو جہنم کے کنارے کھڑا کر دیا جائے گا تو کفار آگ دیکھ کر اضطر سے کہیں گے کہ اے اللہ اگر ہمیں واپس بھیج دیا جائے تو ہم وہ کام نہیں کریں گے جس کی پاداش میں دہکتی آگ کے پاس کھڑے ہیں اور تب ہم پکے ایمان والے بن جائیں گے۔ تب اللہ کہے گا کہ یہ دروغ گوئی کر رہے ہیں انہیں اگر واپس بھیج بھی دیا جائے تو یہ وہی کچھ کریں گے ۔ ویسے ایک سیدھی سی مثال ہبوط آدم کی ہے کہ منع کرنے پر بھی دانہ گندم کا ذائقہ چکھا اور چلے آئے زمین پر۔ شاید یہ چیز انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی یا فطرت بن گئی کہ وہ ممنوعہ اشیا کی طرف لپکتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ ممنوعہ اشیا ہی میں کشش رکھ دی گئی ہے جو توبہ شکن ہے۔ ہم غلط رخ پر چلے جاتے ہیں کہ غلط انداز ہماری عادت بن جاتا ہے۔ امجد صاحب نے کہا تھا اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے۔ ہم زمانے کی ڈگر پر چل کر کچھ زیادہ ہی آزاد خود بیں ہو جاتے ہیں۔ وہی نفس امارہ اور ہم اورخواہشات کے گھوڑے۔ہمارا دل اور خواہش ہمیں گمراہ کرتی ہے۔ پھر ہم حق تلفی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم جب تعلق نبھاتے ہیں تو باطل سے اغماض کرتے ہیں ۔ مولانا روم نے شاید تبھی کہا تھا کہ: چون غرض آمد ہنر پوشیدہ شد صد حجاب از دل بسوئے دیدہ شد یعنی جب انسان کی غرض سامنے آ جاتی ہے تو پھر آنکھ پر پردے پڑ جاتے ہیں اور یہ پردے دل کے ہوتے ہیں پھر ہم دل سے دیکھتے ہیں۔ آنکھوں سے نہیں۔ ایسے ہی ایک غزل کی شعر یاد آ گیا کہ آپ یوں لطف آ جائے: محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے ہم آئینہ نہ رہے تم کو روبرو کر کے اصل میں غلط روش پر چلتے ہوئے ہمارے مزاج پراگندہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے مزاج یا طبیعت اپنی تشفی چاہتی ہے۔ یہ تو داخل کا مسئلہ ہے اور ہم معروضی طور پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں تبھی تو عادل حکمران کو بہت فضیلت دی گئی ہے ہم بار با حکایتوں میں پڑھتے ہیں کہ قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ کمزوروں کو پکڑ لیتے تھے اور بڑوں کو چھوڑ دیتے تھے یعنی انصاف کو سب کے لیے ایک ہے یہی بات عمران خان بھی بڑے شدومد سے کیا کرتے تھے۔ آپ ہرگز نہ سمجھئے گا ۔ خان صاحب سے پہلے بھی یہی کچھ ہوتا آیا ہے کہ ڈوگر کورٹ قسم کے نام رکھے گئے۔ سپریم کورٹ پر حملہ تک ہوا کہ مرضی کا فیصلہ چاہیے۔ میں ایک نظریہ کے تحت بات کر رہا ہوں کہ ہمیں اپنے روئے مزاج اور طبیعت پر بھی نظرثانی کرنی چاہیے کہ ہم بھی اندھا دھند انصاف کی اپنی تشریح نہ کریں کہ یہ اچھا ہے کہ کھاتا بھی ہے اور لگاتا بھی ہے یا یہ اس لیے قابل دست اندازی نہیں کہ یہ عوام میں بہت مقبول ہے۔ صائب یہ ہے کہ ملزم کو منصف اعلیٰ روٹین میں ڈیل کرے۔ یہ بھی درست نظر نہیں آتا کہ آپ پچاس روپے کے سٹام پر ایک مجرم کو لندن بھیج دیں اور وہ پچاس روپے کا ضامن مجرم کو واپس نہ لا سکے اور پھر وہ وزیراعظم بن جائے۔ اس پر منی لانڈرنگ کے کیس بھی دھرے کے دھرے رہیں۔سیاستدانوں کو بھی چھوڑیئے خدا کے لیے اپنا اپنا جائزہ لے لیجئے کہ معاشرے میں جو ذمہ داری ہماری ہے کیا ہم اسے بطریق احسن نبھا رہے ہیں۔ ہمارا کردار ہی معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ اللہ پاک نے صرف کافروں کے لیے نہیں کیا۔ آپ غور تو کریں یہ تمام فصلتیں عادتیں اور انداز ہم بھی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ میں تو ظالم بادشہ ے سامنے بھی کلمہ حق کہنے کا حکم ہے۔ مگر اس سے بھی پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ حق اصل میں کیا ہے اسے پہچاننا از حد اہم ہے اور اسی طرح باطل کو پہچاننا بھی اہم ہے۔ آپ ایک لمحے کو سوچئے کہ اکثریت اس طرح سوچتی ہے کہ بڑی برائی کے مقابلے میں چھوٹی پرانی کو ووٹ ڈال دیں۔ گویا برائی کے بغیر ہم جی نہیں سکتے۔ یہ رویہ اچھائی کو روکتا ہے اس کا نتیجہ بھی ہم اخذ کرلیتے ہیں کہ چھوڑو جی جماعت اسلامی کو ووٹ ڈالنا ووٹ ضائع کرتا ہے سچی بات ہے میں نے تو طے کرلیا ہے کہ ووٹ ضمیر کے مطابق ڈالنا ہے۔۔ اے اللہ ہمیں حق دکھا اور باطل سے بچا۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: اس نے حق بات کو لوگوں سے چھپا رکھا ہے اک تماشہ سر بازار لگا رکھا ہے