سدا نہ پھولن توریا نفرا ۔سدا نہ ساون ہو۔ (سرسوں کے پھول ہمیشہ نہیں رہتے،نہ ساون ہمیشہ رہتا ہے۔اس کہانی میں باسک ناگ‘ طوطے‘ ہنس‘ گوہ کے نام ہیں‘ گھوڑے اور اونٹ کا ذکر ہے۔ٹاہلی کے درخت کا ذکر ہے‘ ڈھاک کے درختوں کا ذکر ہے۔ ہرن اور ہرنی ہیں۔ بنسری ہے۔ گھاس کی بات ہے گیدڑ‘ قصاب‘ سنار‘ ترکھان ہیں۔ راکھشس کے لئے روٹیاں بناتی عورت ہے۔ اس کہانی میں ایک دلچسپ واقعہ راجا رسالو کے ہاتھوں قتل ہونے والے سات راکھشسوں کی بہن کا ہے جو گندہ گڑھ کی پہاڑیوں میں چھپ گئی۔ یہ پہاڑیاں اٹک کے شمال میں دریائے سندھ کے کنارے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ راجا رسالو نے اس کے غار کے سامنے اپنا مجسمہ کھڑا کر دیا۔ پھر ایک راجہ ہری چند کا ذکر ہے۔ ایک رانی سانکھنی ہے۔ ایک شہر ہورڈی نگری کا ذکر ہے۔ اس زمانے میں مہمان کے احترام کی علامت کے طور پر زعفران کا ٹیکہ ماتھے پر لگایا جاتا تھا۔ ایک اور رانی چاندنی ہے۔ ایک وزیر مہتہ چوپڑا ہے جو چاندنی کا شوہر ہے۔ اٹھ پتن‘ نو بیڑیاں‘ چودہ گھمن گھیر جے توں راجا جتی ستی ہیں تے پانی کتنے سیر ( آٹھ پتن ہیں، نو کشتیاں ، چودہ منجدھار ہیں، اگر تم پاکیزہ کردار کے راجا ہوتو بتاو یہ سارا کتنے سیر پانی ہو گا۔ یہ ایک کہانی اور اس میں استعمال پنجابی الفاظ ہیں۔ ممکن ہے کچھ الفاظ صدیوں میں دوسرے لفظوں سے بدل گئے ہوں لیکن لگ بھگ چار ہزار ،دو ہزار سال اور چند صدیاں پرانی کہانیوں میں بے شمار پنجابی نام موجود ہیں۔ میں ان کی الگ فہرست بنانے کی کوشش کر رہا ہوں جس میں انسانوں‘ جانوروں‘ پیڑ پودوں‘ پھلوں‘ ہتھیاروں ‘ مقامات‘ زیورات‘ ملبوسات اور کھانوں کے الگ الگ درجے ہوں۔ ان حکایات کو پڑھتے ہوئے پنجاب کے رہن سہن میں ایک مشترکہ وراثت کا احساس ہوتا ہے۔ راجا گوپی چند‘ راجہ چندر بھان اور رانی کرن‘ نام دیو‘ سخی سرور‘ چوہڑ سنگھ‘ سنسار چند‘ راجا جگت سنگھ‘ جلالی لوہاری ‘ راجا جگدیو‘ راجا نل‘ راجا ڈھول‘ راجا چتر سین‘ میر چاکر‘ اسماعیل خان کی دادی‘ جھنگ کا چوڑی ساز‘ مرزا و صاحباں‘ سسی اور پنوں‘ پرتھوی راج اور ملکاں‘ سرور اور نیر‘ راجا دھرو‘ جالندھر کے پیر ‘ رانی کوکلاں‘ امر سنگھ‘ پرتھی سنگھ‘ گگا پیر‘ سیس پال اور پردمن‘ باناسر جیسے نام اور کہانیاں پنجابی کے قدیم لفظوں سے واقفیت کراتے ہیں۔ پنجاب کا خطہ ہزاروں برسوں سے سرسبز، خوراک میں خود کفیل‘ پانی سے سیراب‘ چھائوں سے فیضیاب اور باہمی محبت سے مالا مال رہا ہے۔ اس لئے یہاں ثقافتی نمو بڑی مضبوط ہوئی۔ یہ اس قدر مستحکم بنیاد ہے کہ پنجابی زبان کے خلاف ہونے والی سازشوں کے باوجود اس کی حیثیت کم نہیں ہو سکی۔ لوگوں کا اطمینان اور خود کفالت ان کی آواز اور الفاظ کی ساخت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پنجابی ڈرے ہوئے نہیں اس لئے ٹھہر ٹھہر کر بولتے ہیں‘کئی بار تو گا کر کلام کرتے ہیں، پرانے قصوں کی شکل میں یہ روایت محفوظ ہے۔ پنجابی الفاظ کی تشکیل میں سماج کی آسودگی سنائی دیتی ہے۔ پنجابی نام زندہ رکھنے کی تحریک زبان ہی نہیں سماج کی تاریخ جاننے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ بہت سے نام ہیں جن کے ساتھ موسموں ‘ رتوں خوشحالی اور بہادری کا حوالہ ہے۔ اگر عقیدے کا اعلان درکار ہو تو ایسے کسی بھی نام کے ساتھ محمد‘ علی‘ حسین ‘ حسن ‘ فاطمہ یا کوئی دوسرا مقدس نام لگا کر ایک تاریخی روایت کو تازہ رکھا جا سکتا ہے۔حکایات پنجاب میں مرزاں صاحباں کا قصہ ہے۔ صاحباں خود ایک قدیم نام ہے۔ اس کے باپ کا نام کھیوا تھا۔ کہانی میں کئی قابل قدر نصیحتیں ہیں۔مرزا کو صاحباں کی طرف جانے سے روکتے ہوئے اس کا باپ ونجھل جٹ کہتا ہے کہ ’’جس گھر کی عورت سے دوستی ہو جائے‘ وہاں کبھی نہیں جانا چاہیے‘ آبرو مندوں کی آبرو کئی ساٹھ روپے خرچ کر دینے سے بھی دوبارہ ہاتھ نہیں آتی‘‘۔ کہانی میں پیلو نام کے شاعر سے مرزا فال نکلواتا ہے۔پیلو پنجاب کی ایک جھاڑی ہے جس پر پھل لگتا ہے ،خواجہ غلام فرید نے اس پر ایک کافی لکھی ہے۔ مرزا کی گھوڑی کا نام بکی ہے۔ بیبو نائن مرزا کے آنے کی خبر صاحباں کو دیتی ہے۔ صاحباں مرزا کو گلاب کا پھول کہتی ہے۔ صاحباں کا ماموں فیروز ڈوگر ہے جو اس کے باپ کو عین شادی کے دن صاحباں کے فرار کی خبر دیتا ہے۔جنگل کا ذکر آتا ہے تو وہاں جنڈ کے درخت بتائے جاتے ہیں۔ مرزا کا گائوں دانا آباد ہے۔ مرزا نے ایک جگہ لاہور والی سڑک پر لوٹ مار کرنے کو اپنا فخریہ کارنامہ بتایا۔ پنجاب کے ساتھ بلوچوں کا قدیمی محبت بھرا تعلق رہا ہے۔ ستگرہ اوکاڑہ میں میر چاکر رند کا مقبرہ ہے۔ اس علاقے میں بلوچوں کے کئی درجن گائوں اب بھی ہیں۔ یہ بلوچ اب ثقافتی اور لسانی اعتبار سے پنجابی ہیں۔ راوی کے کنارے ان کے کئی قبیلے پچھلے سینکڑوں برسوں سے آباد ہیں۔ یہ حوالہ اس طرح آیا کہ سسی پنوں کی حکایت اگرچہ سندھ کے جام آدم کی بیٹی سسی اور کیچ مکران کے راجا کے بیٹے پنوں کی محبت سے متعلق ہے لیکن یہ قصہ پنجاب میں اتنا مقبول ہوا کہ اس کے کرداروں کے نام پنجاب میں عام ہو گئے ۔ اس قصے کو لگ بھگ دو سو سال قبل پنجابی شاعر ہاشم شاہ نے عمدگی کے ساتھ منظوم کیا۔ آرسی ٹمپل نے مختلف بھاٹوں، قصہ گووں سے اسے نقل کیا۔ یہ حکایت اس کا ثبوت ہے۔ قصے میں مگرمچھ‘ کچھو کمے‘ جل پریوں‘ ناگ اور تیندوے کا ذکر ہے۔ نومولود سسی صندوق میں ڈال کر دریا برد کر دی جاتی ہے‘ اٹا نام کا دھوبی اسے نکال لیتا ہے۔ آلکھکھنڈ سلسلہ حکایات کے مصنف چودھری گھاس رام ہیں۔ یہ کہانیاں پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں بہت مقبول ہیں۔ گھاس رام اور ان حکایات کا پتہ بھی ڈیڑھ سو سال پہلے آر سی ٹمپل نے اپنی تحقیق میں محفوظ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کے پختون علاقوں کے پنجاب کے ساتھ قدیمی تعلقات اور میل ملاقات رہی ہے۔ پرتھوی راج بہت طاقتور تھا۔ اس نے شہاب الدین غوری کا دیر تک مقابلہ کیا۔ پرتھوی راج کی کہانی کے کرداروں کے نام پارس‘ کوپ‘ بچھراج‘ گیج مودھنی‘ باسدیو‘ تلکا‘ دوالا‘ ملنا‘ جھجاوت‘ میوہا‘ ملکھا‘ کسودی‘ گجنا‘ آودال‘ اور آھلہ وغیرہ ہیں۔ انگریز عہد میں مسلمان پنجابیوں کے نام ہندو اور سکھ پنجابیوں سے نمایاں طور پر الگ ہو گئے۔ کہیں کہیں اس وقت اور آج بھی نام کا کوئی ایک حصہ قدیمی یادگار کے طور پر مل جاتا ہے۔ جیسے زور آور‘ مسلمان اسے محمد زور آور جبکہ سکھ زور آور سنگھ لکھ لیتے ہیں۔مسلمان چنن دین لکھتے ہیں سکھ چنن سنگھ اور پنجابی ہندو چنن رام، سکھ گلاب سنگھ جبکہ مسلمان محمد گلاب یا گلاب دین لکھتے ہیں۔نہال سنگھ سے سنگھ کا لفظ ہٹا کر مسلمانوں نے شروع میں محمد لگا دیا،ہمارے پانچویں چھٹی نسل کے بزرگوں کے نام بڑے عجیب سے ہو جاتے ہیں۔یہ نام ہماری مقامی شناخت تھے جن سے ہم دور ہوتے گئے۔حالانکہ عربوں نے اسلام لانے کے بعد بھی اپنے وہی نام برقرار رکھے جو پہلے تھے۔ہندوستان کے مسلمانوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی ناموں کو پذیرائی بخشی جبکہ ہندو اور سکھ چونکہ خود کو مقامی ثقافت‘ ماحول اور زبان کے ساتھ جوڑے رہے اس لئے کئی نام صدیوں سے جوں کے توں ان میں رائج ہیں‘ جنہیں ہم ہندو کہہ کر تاریخی طور پر اپنے ہونے کاایک اہم ثبوت نظرانداز کر دیتے ہیں۔