اس بات میں رتی برابر شک نہیں کہ لمحۂ موجود میں ’استادا لاساتذہ‘ جیسی بھاری بھرکم ترکیب جس قدر عمدگی اور اعتماد کے ساتھ استادِ محترم جناب پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے، شاید اس وقت کوئی دوسری ایسی علمی، ادبی ہستی صفحۂ قیاس و قرطاس پہ نشان زد کرنا مشکل کام ہے۔ خواجہ صاحب آج بطور پروفیسر امریطس اورینٹل کالج کے جس کمرے میں بیٹھتے ہیں، وہیں ان کو پہلی بار مَیں نے اڑتیس سال پہلے دیکھا تھا، جب 1986ء میں شیخوپورہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے خاندان کی تعلیمی روایات سے بغاوت کا مرتکب ہوتے ہوئے ’سولاں جماعتاں پاس‘ کا پہلا اعزاز حاصل کرنے کی غرض سے ایم اے اُردو کی کثیر زنی کلاس میں داخلہ لیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر چھیالیس سال تھی، جس میں نصف سے زائد تدریسی تجربہ چھپا ہوا تھا۔ خوب صورت تو تھے ہی، خوب صَوت بھی تھے۔ لیکچر دیتے ہوئے آواز اور لہجہ، اعتماد کی فراوانی سے چھلک رہا ہوتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے چونتیس سال قبل، ایم اے اُردو کرنے کے بعد راقم نے اساتذہ اور دوستوں کی محبت، شریر خاکوں کے ذریعے لَوٹانے کا سلسلہ شروع کیا تو ان کی بابت لکھے خاکے میں ایک جملہ درج تھا کہ ’بات کرتے ہوئے ان کے چہرے پہ اتنا اعتماد ہوتا ہے کہ کچھ پوچھ بھی رہے ہوں تو لگتا ہے، بتا رہے ہیں۔‘ کلاس میں ڈاکٹر صاحب ہمیں تاریخِ ادبِ اُردو اور کلاسیکی شاعری پڑھاتے تھے۔ آج بھی تاریخِ ادب کا تجربہ ان کی پنجاب یونیورسٹی کی شایع کردہ چھے جلدوں پر مشتمل ’تاریخِ ادبیاتِ مسلمانانِ پاک و ہند‘ اور کلاسیکی شاعری کا ذائقہ، ان کے مرتبہ ’انتخابِ زریں‘ میں دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جناب نے جس مہارت سے قلی قطب شاہ سے پروین شاکر تک چھے سو سے زائد صفحات پر مشتمل دو سو بیس شعرا کی نظم و غزل کا انتخاب کیا ہے، گویا اُردو شاعری کی روح نچوڑ لی ہے۔ اس کام کے لیے ’کارنامہ‘ سے کم کوئی لفظ میرے جذبات کی کفالت نہیں کرتا۔ تاریخ کا پرچہ پڑھاتے ہوئے بھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ تاریخ پڑھا نہیں رہے، بنا رہے ہیں۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ سچی اور کھری بات کرنے میں تو آج بھی کوئی ان کا ثانی نہیں۔ اپنی آپ بیتی لکھ رکھی ہے لیکن خیالِ خاطر احباب یا وضع داری کے آداب اس کے منظرِ عام پہ آنے میں حائل ہیں۔ لیکن یہ بھی بات ہے کہ اس ادارے کے اندر کی باتیں اگر اس کے سب سے بڑے بھیدی بھی منظر پہ نہیں لائیں گے تو بعد میں کس کو توفیق ہوگی؟ان کو اورینٹل کالج کی راہداریوں میں چلتے پھرتے یا دفتر میں بیٹھے دیکھ لیں تو لگتا ہے ہمارا ایم اے کا سنہری زمانہ ننگے پاؤں لَوٹ آیا ہے۔ اس عظیم اورینٹل کالج میں پڑھتے پڑھاتے انھیں اتنا عرصہ بیت چکا ہے کہ اب تو یہ خود اورینٹل کے چھوٹے بھائی لگنے لگے ہیں۔ آج بھی کسی تقریب میںکسی موضوع پر اظہارِ خیال کر رہے ہوں تو اتنے وثوق اور سہولت کے ساتھ موضوع کا میدان جیت لیتے ہیں کہ غالب یاد آ جاتا ہے: اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں ’آشوب‘ اور ’افتاد‘ نام کے دو شعری مجموعے چھپ چکے ہیں،جن میںوطنِ عزیز سے محبت کا عالم اس شعر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے: پہلے تو فکر چاہیے اس سر زمین کی اور اس کے بعد دوستی ترکی و چین کی اپنے علمی، ادبی حاسدوں سے متعلق لکھتے ہیں: حسد کی آگ فطرت نے جلائی ان کے سینے میں یہ خاکی ہیں ، نہ نوری ہیں ، فقط ناری ہی ناری ہیں ڈاکٹر صاحب قرادادِ پاکستان کے پہلو بہ پہلو تئیس مارچ 1940ء کو امرت سر کے ایک کشمیری گھرانے میںخواجہ غلام نبی کے ہاںمنجھلے بیٹے کے طور پر پیدا ہوئے اور پنجاب یونیورسٹی کی تعلیمی زندگی میں امرت گھولنے کے لیے تا دیر لاہور میں مقیم رہے۔ بڑے بھائی خواجہ غلام کبریا گورنمنٹ کالج سے پروفیسر ریاضی کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے اور چھوٹے ڈاکٹر آفتاب عالم امریکا میں مقیم ہیں۔ دو بہنوں میں ایک سعد رفیق کی والدہ اور دوسری قائدِ اعظم کے مشیر شریف طوسی کے بیٹے ڈاکٹر انور طوسی سے شادی کے بعد سعودی نیشنل ہو گئیں۔ خواجہ صاحب کی زندگی کے پہلے سات سال امرت سر میں گزرے، جلیانوالا باغ کے قریب سکول میں تیسری جماعت میں تھے، کہ بٹوارا ہو گیا۔ اگلے گیارہ سال انٹرمیڈیٹ تک جھنگ میں رہے، جہاں مجید امجد، جعفر طاہر اور شیر افضل جعفری وغیرہ سے ملاقاتیں رہیں۔ مختلف شہروں میں مشاعرے بھی پڑھتے رہے۔ مجید امجد کا کلام منظر پہ لانے اور ان کی انفرادیت بتانے میں انھوں نے جتنی محنت کی، اتنی تو شاید کوئی جدِ امجد کا نام چمکانے کے لیے بھی نہیں کرتا۔ 1958ء میں ایوب خاں کے مارشل لاء کے سائے سائے لاہور آ گئے، جہاں 1960ء میں گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز (فارسی) اور پنجاب یونیورسٹی سے 1962ء میں گولڈ میدل کے ساتھ ایم اے اُردو کیا۔ رزلٹ آنے کے ساتھ ہی گورنمنٹ کالج میں لیکچرشپ کا آغاز ہو گیا، ایک سال بعد پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبۂ اُردو میں چلے آئے۔ ڈاکٹر صاحب اب چھیاسٹھ سال سے لاہور میں مقیم ہیں، جن میں اورینٹل سے وابستگی کا زمانہ چھے دہائیوں سے متجاوز ہے۔ یہیں 1963ء میں لیکچرار، 1970ء میں اسسٹنٹ پروفیسر، 1977ء میں ایسوسی ایٹ،1983ء میں پروفیسر،1984ء میں صدرِ شعبہ اُردو، 1993ء میں ڈین آف فیکلٹی، 1995ء میں پرنسپل اورینٹل کالج، جولائی 2008ء سے فروری 2017ء تک ڈائریکٹر تاریخِ ادبیات اور 2008ء سے تا حال بطور پروفیسر ایمریطس یہاں مقیم ہیں۔ یہیں 1968ء میں شادی کے بندھن میں بندھے۔ زندگی میں شگفتگی کی کمی کو سیالکوٹ کی مس شگفتہ سے پورا کیا، جو اورینٹل کالج میں ایم اے اُردو کی طالبہ تھیں، اس لیے اس شادی کو محبت کی شادی کہنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ تین بچوں (فواد، جواد، صباحت) کے خوش قسمت باپ ہیں، جن میں دو امریکا میں اور ایک انگلینڈ میں مقیم ہے۔ یہیں تین درجن سے زائد کتب کے مصنف و مولف و مرتب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اہم کتب میں قدیم اصنافِ شعر، نئے پرانے خیالات،اکبر الہٰ آبادی: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ،اقبال کا ادبی مقام اور بہت سے شعرا کے کلیات کی تدوین شامل ہے۔ 1992ء میں بطور ماہرِ مضمون پیکنگ یونیورسٹی، چین گئے اور99۔ 1995ء جائیکا، جاپان میں خدمات انجام دیں۔ 2011ء میں صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔ لاہور کے مختلف علاقوں میں رہائش کا مزہ چکھنے کے بعد آج کل کینٹ میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی، خواہشات اور عزائم کی کہانی اگر مختصر الفاظ میں بیان کرنی ہو تو وہ ان کے اس شعر میں دیکھی جا سکتی ہے: سوچا تھا جوانی میں دنیا کو بدل دیں گے دنیا نے ہمیں لیکن چپ چاپ بدل ڈالا آج ڈاکٹر صاحب کی 84 ویں سال گرہ ہے۔ انکی سوویں سال گرہ دیکھنے کے متمنی تمام شاگردوں اور خیر خواہوں کی جانب سے جنم دن کی دلی مبارک باد کے ساتھ ساتھ، ان کی صحت، تندرستی اور سلامتی کی ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں دعائیں!!!!