یہ جان کر آپ کو خوشی ہوگی کہ گو آئی ایم ایف جن شرائط پہ قرضہ دیتا ہے وہ بظاہر نہایت مخلصانہ نظر آتی ہیں لیکن جب کوئی ملک ان شرائط کو پورا نہیں کرتا تب بھی وہ کبھی اسے قرضہ دینے سے انکار نہیںکرتا۔ایسا نہ ہوتا تو پاکستان بارہا آئی ایم ایف سے بیل آوٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوتا جبکہ معیشت کی صورتحال ہر بار پہلے سے زیادہ خراب رہی ہو۔ کیا آپ نے کبھی سنا کہ پاکستان کا تجارتی توازن یا کرنٹ اکاونٹ توازن دل خوش کن حد تک کم ہی رہا ہو؟ برآمدات میں اضافہ ہی ہوا ہو خواہ درآمدات سے وہ کم ہی رہی ہوں؟اور ایسے ہی دیگر اشاریے جو آئی ایم ایف کی قرض داری کے لئے ضروری ہوں کبھی مثبت دکھائی دئیے اور پھر بھی اس نے ہمیں بیل آوٹ دینے سے انکار کیا ہو؟آئی ایم ایف کا در کبھی بند نہیں ہوتا۔آئی ایم ایف خود ہمیں بتاتا ہے کہ وہ آپ کو قرضہ اس وقت دے گا جب کوئی حکومت اپنی معاشی پالیسیاں اس طرح مرتب کرنے پہ رضامند ہوں جو ان مسائل کو حل کر سکیں جن کی وجہ سے یہ نوبت آئی ہے۔یہ شرائط اس بات کو یقینی بھی بنائیں گی کہ دئیے جانے والے قرضے ری فنڈ ہوسکیں تاکہ دیگر شریک ضرورتمند ممالک کو قرضہ دیا جاسکے۔اب ظاہر ہے اس بات کو یقینی ایک ایسے بجٹ کے ذریعے ہی بنایا جائے گا جس سے کسی بھی طرح سرمایہ اکھٹا ہوسکے۔کیا آپ ستر سالوں سے نت نئے ٹیکس ادا نہیں کرتے آرہے؟کیا ہر بجٹ آپ کو ٹیکسوں کے ایک نئے پھندے میں نہیں جکڑ لیتا؟ پھر اصولا ًتو ہونا یہ چاہئے کہ اگلی بار بیل آوٹ کی نوبت نہ آئے لیکن ایسا ہر بار ہوتا ہے اور آپ کا مخلص آئی ایم ایف کبھی انکار نہیں کرتا۔آپ کو یہ بھی علم ہوگا کہ بجٹ سے صرف ٹیکسوں کی مد میں پیسہ اکھٹا کیا جاسکتا ہے۔تجارتی خسارہ پورا کرنے یا کم کرنے یا کرنٹ بیلنس اکاونٹ میںاضافہ کرنے یا کل قومی پیداوار بڑھانے کے لئے معاشی اصلاحات اور پروگرام متعارف کروائے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف آپ کو یہاں بھی تنہا نہیں چھوڑتا اور اسی امدا د سے مشروط آئی ایم ایف سپورٹڈ پروگرام شروع کئے جاتے ہیں یہی نہیں ان پروگراموں کی نگرانی بھی کی جاتی ہے کہ وہ اپنا ہدف پورا کرنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں۔ایسا بظاہر ان ممالک کو اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے کے لئے کیا جاتا ہے تاکہ وہ محض بے کار محض اور ادھار کے خوگر نہ بن کر رہ جائیں جو بلاشبہ محبت کی قینچی ہے۔پھر بھی یہ محبت کم نہیں ہوتی اور ادھار ملتا رہتا ہے۔ ایسی مثالیں بہت ہی کم ہیں کہ کسی ملک نے آئی ایم ایف کے پروگراموں پہ عمل کیا ہو اور پرانا قرضہ لوٹا کر نیا حاصل کیا ہو کیونکہ یہ میکرو اکنامک پالیسیاں ممبر ممالک ڈیزائن کرتے ہیں اور یہاں ان ہی کا سکہ چلتا ہے جن کا شیئر یا کوٹہ زیادہ ہے۔ یہ پروگرام ڈیزائننگ ویسے تو ہر ممبر ملک کی ذمہ داری ہے لیکن اس پالیسی ڈیزائن میں اس ملک کا حصہ کس قدر ہوگا جس کا کوٹہ اعشاریہ 46 فیصد ہے ۔آئی ایم ایف کے ان پروگراموں کو کسی بھی ملک کے معاشی حالات کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتا ہے لیکن اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ میکرو اکنامکس میں استحکام کے ساتھ ادائیگی کا توازن بنائے رکھنے میں کامیاب رہے تاکہ ترقی پزیر ممالک میں شرح نمو بڑھے اور غریب ممالک میں غربت کی شرح کم ہوتی رہے لیکن یاد رہے اصل مقصد نہ شرح نمو بڑھانا ہے نہ غربت کا خاتمہ یا اس میں کمی کرنا۔شرح نمو تو یوں بھی ڈالر میں پیمائش کی جاتی ہے۔آپ اپنے ملک میں کیا اگاتے کیا کھاتے کیا لگاتے اور کیا کماتے ہیں اس سے کسی کو کیا غرض ہوسکتی ہے ہاں آپ کی معیشت کا ڈالر کے حساب سے عالمی معیشت میں کیا تناسب ہے یہ آپ کی قدر طے کرتا ہے۔آپ آئی ایم ایف کو کچھ نہ کچھ ضرور واپس کریں اس کے لئے آپ کے مخلص نے آسان شرائط پہ قسطوں کا انتظام بھی کررکھا ہے۔کچھ پروگرام اسی واسطے بند کردئیے جاتے ہیں کہ وہ پہلے سے فراہم کردہ اقساط پہ کوئی کارکردگی نہیں دکھا رہے تھے لیکن اگلی بار نئی آسان شرائط پہ اسی مد میں نئی شرح سود پہ قرضہ دینے سے کبھی انکار نہیں کیا جاتا اسی حساب سے پروگرام کے ڈیزائن میں تبدیلی بھی کردی جاتی ہے لیکن عوام کا ڈیزائن پہلے سے بھی بگڑ جاتا ہے۔ظاہر ہے ایسا ہمارے حکمرانوں کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتا۔مالی سال کے بجٹ بھی ان ہی امکانات و خدشات کو مدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں کہ آپ قرضہ لے تو رہے ہیں وہ اقدامات بھی کریں جن سے ان کی ادائیگی ممکن ہو ۔ اقدامات اٹھا لئے جاتے ہیں لیکن کیا معاشی صورتحال ہر حکومت کے مقابلے میں اگلی حکومت میں بدتر نہیں ہوجاتی کیونکہ یہ مقصد ہی نہیں ہوتا۔ مقصد وہ کوانٹیٹیو پرفارمنس کرائٹیریا یا QPCs بھی نہیں ہوتے جو اگر پورے یا معیار کے مطابق نہ ہوں تب بھی آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ اگلے قرضے کے لئے سفارش کرسکتا ہے وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ آپ نے کتنے اسٹرکچرل بینچ مارک جو خود آئی ایم ایف طے کرتا ہے ، پورے کئے ہیں۔ ان ہی میں تیل اور گیس کی قیمتیں اور ٹیکسوں کی شرح شامل ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایسی اخراجاتی کٹوتیاں بھی کی جاتی ہیں جن کے دوررس نتائج مثبت نہیں منفی ہوتے ہیں جسے عوامی سہولت کا کوئی بھی پروگرام بند کردینا۔ پینشن اور ملازمتوں میں کٹوتی کرنا۔ صحت اور تعلیم کی سبسڈی میں کٹوتی یا پھر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں سبسڈی میں کمی۔ ایسے اقدامات عوام میں اشتعال پیدا کرتے ہیں جبکہ حکمران طبقے کے اللے تللے اور عیاشیوں کی داستانیں میڈیا کے ذریعے زبان زد عام بھی ہوتی رہتی ہیں۔پھر بھی فوری اور وقتی حل کے طور پہ آئی ایم یف کے پاس جاکر جھولی پھیلا دینا سب سے آسان اور قابل عمل طریقہ ہے۔ حکومت پانچ سال ہی تو کرنی ہوتی ہے ۔ اس کے بعد اگلی حکومت جانے اور خالی خزانہ جانے۔ اپنی عیاشیاں چلتی رہنی چاہئیں۔ 2008ء میں پاکستان کی اس وقت کی مخلوط حکومت نے 2010ارب کا بجٹ پیش کیا تھا جو 2007-8 کے بجٹ سے اٹھائیس فیصد زیادہ تھا۔اس وقت آئی ایم ایف نے سولہ شرائط عائد کی تھیں جن میں معمولی رد وبدل کے بعد گیارہ شرائط تسلیم کرلی گئیں۔جن میںزراعت اور خدمات پہ جی ایس ٹی کی جگہ اٹھارہ فیصد سینٹرل ایکسائز ڈیوٹی لگا دی گئی۔یہ قرضے مالی سال کی اگلی سہ ماہیو ں میں دیے جانے تھے جبکہ ورلڈ بینک، اسلامی ترقیاتی بینک جاپان آئیبرڈ بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک نے نئے پروجیکٹس کے لئے قرضے دینے سے انکار کردیا تھا یوں بیرونی قرضہ جات میں پہلے ہی چالیس فیصد کمی ہوگئی تھی۔ایسے میں آئی ایم ایف ہی تھا جو گرتے ہوو ٔں کا سہارا تھا لہٰذااشرائط مان لینے کے سوا کیا چارہ ہوسکتا تھا جبکہ پلے سے کچھ نہ جانا ہو۔سوئس اکاؤنٹ بھرے ہوں اور لندن میں جائیدادیں بھی ہوں۔ان ہی شرائط میں مندرجہ بالا مالیاتی اداروں کے ساتھ قرضوں کی ری شڈیولنگ اور قرضے اور گرانٹ میں فرق کرنا بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی بجلی اور گیس کی سبسڈی ختم کردی گئی۔ غیر ترقیاتی بجٹ منجمد کردیے گئے۔ساتھ ہی روپے کی قدر میںبھی کمی کردی گئی۔اس کے بعد آنے والی نواز حکومت نے آئی ایم ایف سے وفاداری کی نئی داستانیں رقم کیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت جس نے آئی ایم ایف سے گیارہ بلین ڈالر گیارہ شرائط سے ہی حاصل کئے تھے لیکن ان شرائط کو پورا نہ کرسکی تو آئی ایم ایف نے تین بلین ڈالر روک لئے۔نواز حکومت نے ان تمام شرائط کو پورا کرنے کی یقین دہانی کروائی اور ان ہی شرائط پہ نئے قرضے حاصل کرلئے اور آتے ہی عوام پہ پٹرول بم گرا دیا۔ سات بلین ڈالر کے بیل آؤٹ کے لئے انہوں نے گزشتہ حکومت کی طرح کسی گفت وشنید کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔اسٹیٹ بینک کو اوپن مارکیٹ سے فوری طور پہ سو ملین ڈالر خریدنے کی ہدایت کی گئی جو آئی ایم ایف کی پہلی شرط تھی۔روپیہ جو پہلے ہی دباو میں تھا ڈالر کے مقابلے میںبدترین شرح پہ آگیا۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ انڈسٹریل سیکٹر جو پہلے ہی ٹیرف میں چھیانوے فیصد اضافہ جھیل رہا تھا مزید دباو ٔمیں آگیا۔گھریلو صارفین کے لئے بھی پندرہ فیصد اضافہ ہوگیا۔بجلی کے بلوں کی وصولی کا حال جوں کا توں رہا کیونکہ قیمتیں بڑھا کر مطلوبہ نتائج حاصل کئے جارہے تھے۔ اگلے ہر بجٹ میں نون لیگ حکومت نے آئی ایم ایف کو کبھی مایوس نہیں کیا اور ان کی شرائط مانتی رہی۔اب یہ منی بجٹ جسے آنا ہی تھا اگر عام صارف کو ریلیف دیتا ہے اور انڈسٹری کو فروغ دے کر معاشی سرگرمی کو بڑھاتا ہے جیسا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو انچاس ارب کا ریلیف دیا گیا ہے تب تو خیر کی توقع کی جاسکتی ہے ورنہ اس منی بجٹ کے پیچھے بھی آئی ایم ایف کا ہی ہاتھ ہوگا۔