پاکستانی عوام کے ساتھ یوں تو بہت سارے ڈرامے ہوتے ہیں "مفت آٹا سکیم " کے نام پر ان کی تسلی و تشفی کیلئے ایک لالی پاپ اور سہی۔ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ دجال سب سے پہلے قحط ذدہ بستی میں نمودار ہوگا جہاں قلت خوراک کے باعث لوگ سسک رہے ہونگے، اور وہ اپنے سہولت کاروں کی ٹیم کے ہمراہ ہوگا۔اس کے ایک ہاتھ میں پانی و خوراک کے پیکجز اور دوسرے میں آگ ہوگی۔ بطور گیم چیلینج وہ لوگوں سے کہے گا کہ جو اس کی جماعت میں شامل ہونگے وہ انہیں تو نوازے گا جو عزت نفس اور ایمان کا سودا کسی بھی قیمت پر نہیں کریں گے انہیں وہ ذلیل کرنے کی دھمکی دے گا۔یہی حال آج کل ہمارے سیاست دانوں کا ہے۔ جو لوگ ان کا دم نہیں بھرتے انہیں محروم رکھا جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی بنیاد پر عوام کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے کہ یہ ہماری پارٹی کا ہے اور یہ فلاں مخالف پارٹی کا ورکر ہے۔ پاکستانی شہری کا کوئی نہیں سوچتا۔ مفت آٹا سکیم کے تحت پاکستانیوں کی تذلیل بڑے روزو شور سے جاری ہے۔ ذلت کا اس سے بھیانک منظر اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ مخص دس کلو آٹے کا تھیلا لینے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری خاص طور پر مستورات اس طرح سے خوار ہوں۔ مفت آٹے کی بجائے عوام کو سستا آٹا مہیا کیا جانا چاہیے تاکہ وہ نہ صرف رمضان میں خوداری سے آٹا خرید سکیں بلکہ رمضان کے بعد بھی۔ اس میں بصیرت آمیز پہلو یہ پنہاں ہے کہ عوام خود کو یا ریاست ان کو بوجھ تصور نہیں کرے گی۔ مگر صدحیف کہ پاکستانی عوام بھکاری بن کر رہ گئے ہیں۔ حکومتی دعووں کے مطابق دس کروڑ عوام کو مفت آٹا فراہم کیا جا رہا ہے چلیں فرض کریں کہ دس کروڑ عوام کو اگر بھکاری ہی سمجھ لیا جائے تو پھر پنجاب میں آخر بچتا ہی کیا ہے؟؟؟ مفت آٹے کے حصول کے لیے تڑپتے عوام کے اتنے دلخراش مناظر کہ کلیجہ ہی منہ کو آجائے۔ بیچارے لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر آٹا لے رہے ہیں۔ رمضان المبارک کی عظمت و شان کا تقاضا یہ ہے کہ مفت آٹا تقسیم کرنے والے سینٹرز کی تعداد میں اضافہ نیز نظم و ضبط کے لیے سائینٹفک طریقہ اختیار کیا جائے۔ لیکن آٹے کی تقسیم کا عمل سنبھالنے کی ہر تدبیر ناکام ہو رہی ہے۔ بھگڈر مچنے سے کئی افراد دس کلو آٹے کے لئے موت کی وادی میں اتر چکے ہیں۔ سوچنے والی بات ہے کہ مفت آٹا سکیم کا خیال اب اور رمضان میں ہی کیوں آیا کہیں اس سکیم کے تانے بانے الیکشن سے تو نہیں جا ملتے؟نجانے سرکار کو یہ خیال کیسے آیا کہ ایک بار آٹا مفت دے کر پھر آٹے کی قیمت میں سو فیصد اضافہ کر دیا جائے۔ اس کے پس پردہ کیا عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں ہم عوام سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ عشق ومشک چھپائے نہیں چھپتے اسی طرح سوشل میڈیا کے دور میں حقائق چھپ نہیں سکتے۔ سوشل میڈیا پر مفت آٹا سے متعلق جاری تفصیلات افسوسناک ہیں۔دنیا انگشت بہ دندان ہے کہ ایٹمی پاور پاکستان میں عوام کے لیے مفت آٹے کے حصول کے لیے لمبی لمبی قطاریں اور اس پر روزہ کی حالت میں انسانیت کی تذلیل؟ سوشل میڈیا پر مختلف فلور ملوں کی جانب سے محکمہ خوراک کو تحریراً آگاہ کیا گیا ہے کہ ان کو ناقص یا انسانوں کے لیے ناقابلِ استعمال مضر گندم فروخت کی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے آٹے کا معیار بھی خراب ہے ۔ مسکین لوگوں کی شہادتیں موصول ہو رہی ہیں کہ آٹا کالا ہے، آٹے میں ڈھیلے بنے ہوئے ہیں، روٹی صحیح نہیں بنتی اور ذائقہ بھی نہیں ہے۔ جن غربا نے بڑی تگ ودو سے آٹا لیا ہے اب وہ دعائیں کر رہے ہیں کہ کاش آٹا جلد ختم ہو جائے کیونکہ ان کے ان کا کہنا ہے ہے کہخوار بھی ہوئے اور آٹے کا معیار بھی تسلی بخش نہیں۔ یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ مفت آٹا سکیم کرپشن سے خالی نہیں۔ شفافیت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بنا ٹوکن و پرچی کے پہلے اپنوں کو نوازا جا رہا ہے، دکانیں بھری جا رہی ہیں اور کہیں بعد میں مظلوموں کی سنی جاتی ہے۔ یکدم کہا جاتا ہے کہ آٹا گودام سے چوری ہو گیا ۔ایسا لگتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے دجال موجود ہیں جو آٹا روک لینے اور عطا کرنے کی مکمل استطاعت رکھتے ہیں۔ بدانتظامی کی یہ سرگوشیاں ابھی جاری تھیں کہ مفلس عوام میں کالے آٹے سفید آٹے کی بحث چھڑ گئی ہے۔ سفید آٹا وہ ہے جو شکایات کے بعد دیا گیا ہے۔ قارئین اب اذہان میں یہ خیال اٹھتا ہے کہ کیا کرپشن و کمیشن مافیا پاکستان کے حصے میں ہی رہ گیا ہے۔ پہلے تو محکمہ خوراک کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔ ابھی چند ماہ قبل 23 اکتوبر کی خبر تھی کہ لاہور میںکروڑوں روپے مالیت کی گندم پڑے پڑے خراب ہوگئی ہے، گندم میں کیڑے لگ گئے ہیں۔ فکر تو اس بات کی ہے کہ جس طرح سننے میں آ رہا ہے خراب گندم بیچی جا رہی ہے کیا گارنٹی ہے کہ یہ مضر صحت فنگس شدہ گندم دوبارہ آٹے کی صورت میں مارکیٹ میں نہیں آ سکے گی۔؟؟؟ وہ محاورہ تو قارئین نے سنا ہی ہوگا کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔نجانے کیا معلوم کہ " دیسی کالا آٹا" کا چکر دے کر منافع خور مافیا اپنی چاندی کرتا ہو۔ ہم عوام کا کوئی پْرسان حال نہیں۔ ہم عوام ریاستی یتیم ہیں۔ کوئی ایسا لیڈر موجود نہیں جو سرپرست اعلیٰ کا کرادر ادا کرتے ہوئے غریب عوام پر دست شفقت رکھے۔ مہنگائی کی وجہ سے آجکل لوگ زندہ لاشوں کی مانند سڑکوں پر اپنے تفکرات میں مگن چلے پھرتے ہیں۔ غریب لوگ سڑکوں پر بھوکے ننگے سردی گرمی میں پڑے رہتے ہیں حکمران گاڑیوں میں بھی ہیٹر، اے سی سے مستفید ہوتے ہیں۔ غریب ضروریات کے لیے تڑپ تڑپ کر مر رہا ہے جبکہ کرپشن مافیا آسائشات میں ڈوبا ہوا ہے۔اگر مفت آٹا لینے کے بعد بھی عوام آنسوؤں کے ساتھ روئیں اس کو ریلیف کہیں گے یا تذلیل۔ اس کے علاوہ آٹے کی فراہمی کے لیے غیر جانبدار ، شفاف سسٹم متعارف کروایا جائے تاکہ معاشرے میں چھوٹے چھوٹے دجال پنپ نہ سکیں۔