’قلمی دشمنی‘ اصل میں میری طنزیہ مزاحیہ تحریروں اور شریر خاکوں پر مشتمل پہلی کتاب تھی ، جو 1992میں لاہور کے ایک معروف ادارے سے طبع ہوئی۔ کتاب کو سراہنے کے ساتھ ساتھ اس انوکھے نام کو بھی بہت سے لوگوں نے پسند کیا۔ کتاب کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اسے مشتاق احمد یوسفی، ممتاز مفتی اور انور مسعود کے تعریفی و تعارفی فلیپس کی اشیر باد حاصل تھی۔ ادبی حلقوں میں کتاب کا کھلی باہوں سے استقبال کیا گیا۔ بالخصوص پروین شاکر، زیبا بختیار، مادھوری ڈکشٹ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور مشتاق احمد یوسفی کے خاکوں پر خوب شاباش ملی۔ سید ضمیر جعفری نے تو یہاں تک لکھا کہ: ’ ’تمہاری تحریر میں مجھے کرنل محمد خاں دوبارہ لفٹین کی وردی میں نظر آنے لگا ہے۔‘‘ مال روڈ پہ واقع ایک ہوٹل‘ میں بانو قدسیہ کی صدارت میں کتاب کی ٹھیک ٹھاک تعارفی تقریب منعقد ہوئی۔ میری تجویز پر کتاب کے سرورق پہ ایک کمان بنائی گئی تھی، جس پہ تیر کی بجائے قلم چڑھایا گیا تھا۔ کتاب کی ایک انوکھی داد یہ بھی تھی کہ ایک موروثی کالم نگار نے جب صحافتی دنیا میں قدم رکھا تو اپنے کالم کے لوگو کے لیے اس کا ٹائٹل تو پورے کا پورا چرا لیا، البتہ نام میں تھوڑی رعایت برتی۔ 1997میں جب ایک معروف روزنامے میں ’قلمی دشمنی‘ ہی کے عنوان سے کالم نگاری کا سلسلہ شروع کرنا چاہا تو یہی کتاب میرا تعارف بنی اور توصیف احمد خاں جیسے غصیلے ایڈیٹوریل انچارج نے کتاب کے سرِ ورق اور پھر پسِ سرورق پہ ایک طائرانہ نظر ڈالتے ڈالتے ایک دم ٹھٹھک کر کہا: ’’مشتاق احمد یوسفی نے فلیپ لکھا ہے؟ خوب! چلیں کل سے کالم بھجوائیے۔‘‘ اس طرح تقریباً ربع صدی سے قلم کا اخباری سفر کسی نہ کسی طورجاری ہے۔ اس دوران داد بے داد کے انداز بدلتے رہے۔آج بھی جب پاکستان کے علاوہ انگلینڈ، امریکا، جرمنی، ممبئی یونیورسٹی یا حیدر آباد دکن سے کسی کالم کی تحسین ہوتی ہے تو تسکین کے انڈوں سے چوں چوں کرتے چوزے نکل آتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں جنوبی پنجاب کی ایک یونیورسٹی سے ایک پروفیسر صاحبہ کا تفصیلی خط موصول ہوا، لکھتی ہیں: ’’جوں جوں پڑھتی گئی دل دماغ روشن ہوتے گئے۔ چاروں جانب مسکراہٹ کی کلیاں بکھرتی چلی گئیں۔ بہت سے جملوں پر اکیلے بیٹھے ہنستی رہتی ہوں ، لوگ سمجھتے ہیں عمر کا تقاضا ہے۔ جب وہ پوچھتے ہیں تمھیں کیا ہو گیا ہے تو مَیں کہتی ہوں مجھے اشفاق احمد ورک ہو گیا ہے۔ کبھی شفیق الرحمن کے جملے یہی کیفیت طاری کیا کرتے تھے جو اب تمہارے جملے کرتے ہیں۔ خوش رہو، سُکھی رہو، جیتے رہو، لکھتے رہو، بہت دعائیں!!‘‘ پھر ایک اور واقعہ بھی دلچسپ ہے۔پروفیسر زکیہ خورشید، جو کب سے زکیہ عامر کے درجے پہ فائز ہو چکی ہیں، ویسے تو کوئین مَیری جیسے معروف کالج میں اُردو کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، گیریژن یونیورسٹی ، لاہورمیں پی ایچ۔ڈی کی سکالر ہیں، نہایت قابل استاد ہیں اور انتہائی مخلص انسان۔ ایک زمانے سے مجھ سے خدا واسطے کا اُنس رکھتی ہیں۔ اس تعلق کا محلِ وقوع کہیں دوستی اور بھائی چارے کے بَین بَین تلاش کیا جا سکتا ہے۔ میری ٹوٹی پھوٹی ادبی ’خدمات‘ پہ ایم فل کا مقالہ لکھ چکی ہیں۔ ملازمت کے زمانۂ آغاز میں کچھ عرصہ میرے شہر شیخوپورہ میں بھی تدریس کے فرائض انجام دے چکی ہیں۔ شیخوپورہ، قصور، اوکاڑہ اور گوجرانوالہ ویسے بھی لاہور کے کم وسائل رکھنے والے سرکاری ملازمین کے لیے ڈیوڑھی کا درجہ رکھتے ہیں۔ انھیں یقین ہوتا ہے کہ ان کی اگلی چھلانگ انھیں منزلِ مقصود تک پہنچا دے گی۔ آج پرانے کاغذات میں سے ایک پیلا پڑتا ہوا خط ملا، جو میری ابتدائی کتاب ’’قلمی دشمنی‘‘ پڑھنے کے بعد کوئی ربع صدی قبل تحریر کیا گیا تھا۔ طویل عرصے بعد بھی یہ تحریر اچھی لگی تو سوچا کیوں نہ اسے اپنے قارئین کے ساتھ سانجھا کیا جائے۔ اس سے مذکورہ خاتون کے ساتھ ہمارے شکوک و شبہات کی دھند میں گم ہوتے تعلق کی اصل وجہ بھی سمجھ آ جائے گی۔ ملاحظہ کیجیے: کالج لائبریری سے حاصل کردہ ’’قلمی دشمنی‘‘ پڑھتے پڑھتے ایک موہوم سا خیال ذہن میں آیا کہ شاید کبھی چلتے چلتے، آتے جاتے، راہ میں اس کے مصنف سے ملاقات ہو جائے۔ مَیں ہمیشہ سے مزاح اور مزاح نگاروں کی دل سے قدردان رہی ہوں، اس لیے یہ خیال رفتہ رفتہ ہلکی پھلکی تمنا کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ ایک زمانہ تھا کہ مجھے عوامی سواریوں پہ روزانہ شہزادہ سلیم عرف شیخو کے شہر جانا پڑتا تھا۔ مصنف کی کھوج میں نہیں بلکہ اپنے حصے کے رزق کی تلاش میں۔ مجھے اتنا اندازہ تھا کہ کتاب کے مصنف کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ پھر یوں ہوا کہ ایک روز اچانک اشفاق سے آمنا سامنا ہو گیا۔ اُس کے شہر میں نہیں بلکہ میرے اپنے شہر میں۔ بات چیت کے دوران پوچھا کہ آپ وہی ہیں ’قلمی دشمنی‘ والے؟ کہنے لگا: جی ہاں! مَیں ہی اشفاق احمد وِرک ہوں، ’قلمی دشمنی‘ کا مصنف و موجد! کتاب کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس قلم دوست نوجوان نے قلم کے بل بوتے پر اتنی ’دشمنیاں‘ پال رکھی ہیں کہ اس کا جاٹ ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ اگر اس کی جملہ نگارشات کو جمع کیا جائے تو اپنی ہی تحریروں کے ڈھیر میں یہ ننھا مُنا سا مصنف پوری طرح ڈھک چھپ جائے لیکن عجب لطیفہ ہے کہ وہ اس انبار میں چھپتا نہیں، دبتا نہیں بلکہ اور نمایاں ہو جاتا ہے۔ اس کی تحریروں کی پھولا پھالی میں اس کا قد بانس کے پودے کی مانند بڑی سُرعت سے سر نکالتا ہے اور اپنی اصل سے کئی گُنا بڑا دکھائی دینے لگتا ہے ۔ اس کی تحریروں پر مشتمل کاغذات کو اگر تولا جائے تو وزن منوں اور ٹنوں میں ہوگا لیکن دوسری طرف اگر اس مٹھی بھر خاک کو رکھا جائے تو معجزہ یہ ہوگا کہ اس والا پلڑا بھاری نظر آئے گا۔ اچھا خاصاخوش مزاج آدمی ہے، اکثر و بیشتر ہنستا مسکراتا نظر آتا ہے۔ لوگ عموماً قہقہہ لگاتے ہیں: ہا ہا ہا لیکن اشفاق یہاں بھی وسیع القلبی سے کام لیتے ہوئے قہقہوں کا مجموعہ بولتا ہے، یعنی ہنستا ہے تو ہَے ہَے ہَے کی صدا گونجتی ہے۔ مشکل میں ہمیشہ دوسروں کی مدد کرتا پایا گیا ہے۔ محض انسان دوست نہیں بلکہ انسانیت کا دوست۔ عاجزی اور انکسار کا یہ عالم ہے کہ اتنا بڑا نام کمانے کے باوجود تکبر کی آلودگی سے بال بال بچا ہوا ہے لیکن تدبر کی دلدل میں ہمیشہ گوڈے گوڈے دھنسا ہوتا ہے۔ اشفاق سے میرے تعلقات اگرچہ بڑے خوشگوار ہیں لیکن اس کی اصل خرابی یہ ہے کہ وہ ایک مرد ہے۔ اس بات سے مجھے کبھی کبھی کوفت بھی ہوتی ہے۔ اس کے مرد ہونے کے کارن مَیں ایک اچھی سہیلی سے محروم ہوں۔ مَیں اکثر سوچتی ہوں کہ کاش وہ ایک عورت ہوتا!!! آخر میں مجھے اپنی اس کوتاہ قلمی کا اعتراف ہے کہ خواہش اور کوشش کے باوجود مَیں اپنی اس پسندیدہ، رنگا رنگ، ہر دم ہشاش بشاش،اور زندہ دل شخصیت کا خاکہ لکھنے کی بجائے محض ایک مختصر سی ’خاکی‘ ہی لکھنے کی جسارت کر پائی ہوں۔ میری اس کاوش پر: ہنستا تو ہو گا آپ بھی ’لڑکا‘ کبھی کبھی