در بہاراں گل نوخواستہ سبحان اللہ جلوہ آرا ہے وہ بالواسطہ سبحان اللہ ایسا ہنستا ہوا چہرا کہیں دیکھا ہی نہ تھا کہہ دیا میں نے بھی بے ساختہ سبحان اللہ اور پھر جس مقصد کے لئے یہ تمہد باندھی’ پھول کھلنے لگے یادوں کے پس غرفہ، چشم بزم یاراں ہوئی آراستہ سبحان اللہ اور پھر اس سبب یہ شعر بھی ذہن میں آ گیا کہ’ اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا۔بہتر ہے ملاقات میںمسیحاو خضر سے‘ میرے لئے یہ ایک خوشگوار عمل تھا کہ ایک ایسی محفل میں جائوں کہ جہاں ملنے کا سبب ایک پاکیزہ اور بے لوث تعلق ہو۔ یوں تو دنیا میں لوگ اپنے اپنے مقاصد اور مفادات کے لئے گروپ بھی بناتے ہیں اور دوستانہ بھی یہ تعلق میرے لئے نیا اور معطر تھا کہ ہمارے ایک دوست میاں مقبول نے جو کہ ہمارے مرغزار کالونی کے صدر بھی رہے ایک گروپ ان حاجیوں کا تشکیل دیا جو 2019ء میں اکٹھے حج کرنے گئے اور وہاں انہوں نے شب و روز اکٹھے گزارے۔ ایسے ہی مجھے شیخ سعدی کی وہ حکایت یاد آ گئی کہ مٹی سے کسی نے پوچھا تھا کہ تم میں سے خوشبو کیوں آ رہی ہے تو مٹی نے کہا تھا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں بس میں کچھ عرصہ پھولوں کی صحت میں رہی ہوں ہاں سعودی ایک شعر لکھتے ہیں: جمال ہم نشیں درمن اثر کرد وگرنہ من ہمی خاکم کہ ہستم مجھے حیرت ہوئی کہ مختلف شہروں سے حاجی صاحبان شریک ہوئے اور ایک دوسرے کو خلوص اور محبت سے بغیر گیر ہوئے اب اس رشتے کو آپ کیا نام دیں گے۔مجھے 2019ء کے حج کے وہ شب و روز یاد آ گئے کہ جب ہم لوگ عزیزیہ میں ٹھہرے تھے ایک ہی ہوٹل میں ملاقاتوں میں دوستیاں ہو گئیں خاص طور پر ہمارے ایک مولانا محمد امجد تھے جو عمر میں ہم سے چھوٹے تھے اور بہت ہی زیادہ انرجیٹک ایک ذہین عالم دین انہوں نے ہمیں تسبیح کی طرح پرو دیا تھا۔میاں مقبول نعیم صاحب اور دوسرے دوستوں نے اس حج کے تعلق کو ایک ہمیشگی کی صورت میں دوستی کے اندر ڈھال دیا انہوں نے باقاعدہ ایک حج گروپ بنا رکھا ہے کہ ایک دوسرے سے تعلق بھی رہتا ہے اور مولانا محمد امجد سے مسئلے مسائل بھی پوچھتے ہیں یہ تعلق لائق تحسین ہے۔ مقبول کے گھر یہ حاجی گروپ صرف ناشتہ کے لئے نہیں آیا تھا بلکہ مولانا محمد امجد نے خاتم النبین کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی کہ یہ ایمان کا جزو لازم ہے اور اس سے ایک اہم نکتہ یہ نکلتا ہے آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا کہ دعوت و تبلیغ کام انہوں نے امت کے سپرد کیا۔گویا مسلمانوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ یہ وہ جماعت ہے جو خیر کا کہتی ہے اور بدی سے روکتی ہے ہر شخص پر ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حلقہ اثر یا اپنے حلقہ ارادت یعنی جہاں کہیں بھی اس کی چلتی ہے وہ اسلام کا پیغام پہنچائے بلکہ ابتدائی طور پر اس کے اہل خانہ ہیں جس خاندان کا وہ سربراہ ہے اس سے ان کے لئے سوال کیا جائے گا۔ کچھ باتیں حج کے حوالے سے بھی ہوتی رہیں کہ حکومت حج کو بہت مہنگا کر چکی ہے بلکہ یوں کہیں کہ حالات بھی کچھ اس طرح کے ہیں روپے کی قدر خاصی کم ہو چکی ہے اور کچھ فیس اور ٹکٹ بھی بڑھ گئی ہیں اس سے ہٹ کر سرکاری حج پر کھانے کا بہت بڑا مسئلہ جس کی طرف موجودہ حج منسٹری کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ حکومت اس پر باقاعدہ مشاورت کرے اور حاجیوں کو سہولت بہم پہنچائے یہ فریضہ وہاں کی حکومت کا بھی ہے کہ وہاں حاجی صاحبان تو اللہ کے مہمان ہوتے ہیں اور اہل سعودیہ ان کے میزبان وہ بس اس وقت توجہ دیتے ہیں جب آپ کی حکومت میں جان ہو اور اس لئے ان سے درخواست کی جائے ایک اور بات کا تذکرہ ہوا کہ حاجی صاحبان کی ٹریننگ لازمی قرار دی جائے تاکہ مناسک حج اچھی طرح ادا ہو سکیں وگرنہ غلطی کا امکان ہوتا ہے ۔حج ایک مشقت طلب عمل ہے وہاں جا کر اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھاگ دوڑ جوانوں کا کام ہے یعنی حج نوجوانی کا ہے لیکن اس بات کی سمجھ جا کر بڑھاپے میں آتی ہے بہرحال حج کے بعد اس کا شوق بڑھ جاتا ہے۔تجربہ بھی تو بڑھ جاتا ہے۔ اب آخر میں ایک اور محفل کا تذکرہ بھی ہو جائے جو علی الصبح جناب مہتاب صاحب کے گھر پر تھی ایسے لگتا ہے کہ ہدایت کی ہوائیں چل پڑی ہیں اور یہ بہت پرامید بات ہے کئی قرآنی دروس چل رہے ہیں جن میں سے ایک متذکرہ درس ہے جس کی داغ بیل ڈاکٹر افتخار منہاس رانا ارشاد اور دوسرے دوستوں نے ڈالی یہ روٹیشن میں ہے اب کے مہتاب صاحب کے ہاں مولانا محمد عرفان کا خطاب تھا۔ ان کی بات کچھ ایسی ہے کہ دل سے اٹھتی ہے اور دل میں جا بیٹھتی ہے انہوں نے نماز کے لوازمات پر بات کی کہ نماز بھی باقاعدہ سیکھنے کی بات ہے اور یہ عمل بھی آپ کو عالم دین سے سیکھنا پڑے گا۔ قرآن میں تو نماز کے قیام کا حکم ہے مگر اس کی ادائیگی تو اس کے رسولؐ ہی سے سیکھی جائے گی۔ ایک بات کا تذکرہ میں بالخصوص کرنا چاہتا ہوں کہ ان دروس میں آنے والوں کی اکثریت ساٹھ کے پیٹے میں یا اس سے بھی متجاوز ہوتی ہے کوشش اس بات کی کرنی چاہیے کہ اس میں نوجوانوں کو ترغیب دے کر بلایا جائے نوجوان تو ان دروس میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوتے ایک اور بات جس کی طرف عرفان صاحب نے بھی توجہ دلائی کہ ہر مسلک کے عالم دین کو باری باری بلائیں اور علماء پر بھی ذمہ داری عائد کی جائے کہ وہ فرقوں سے اوپر اٹھ کر بات کریں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لائیں کہ قرآن تو مسلم کا لفظ استعمال کرتا ہے ایسا ہو گا تو یہ سرگرمی ملک و قوم کے لئے بہت ثمر بار ہو گی گھروں میں دروس کا ہونا باعث برکت بھی ہے اور کچھ وہ لوگ بھی اسی بہانے ادھر آ جاتے ہیں جو مسجد جانے سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اچھی بات کانوں میں پڑنا ضروری ہے پھر دل تک بھی آ جاتی ہے۔