قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی میں 7آرڈیننسز کی مدت میں120دن کی توسیع کی قرار داد منظوری دے دی گئی۔ واضح رہے کہ یہ آرڈیننسز نگران حکومت کے دور میں جاری کئے گئے تھے، جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی قادر پٹیل نے ہی نقطہ اٹھایا تھا کہ نگران حکومت نے آرڈیننسز جاری کر کے اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کیا تھا، یہاں یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ آئینی ماہرین کے مطابق جب اسمبلی کا اجلاس ہورہا تو حکومت آرڈیننس جاری نہیں کر سکتی، اس سے مفر نہیں کہ حکومت نے اجلاس کے دوران آرڈیننس جاری نہیں کیے بلکہ پہلے سے نافذ العمل آرڈیننسز کی مدت میں توسیع کی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت نے نگران حکومت کے آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے آرڈیننس کی منظوری کا مقصد نگران حکومت کے اقدامات کی توثیق کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے جبکہ حکومت بھی یہ کام اسمبلی میں یہ بل پیش کر کے اور آئینی طریقہ کار کے تحت ان کو باضابطہ طور پر منظور کرا کر بھی کر سکتی تھی۔ حکومت کی جانب سے قانون سازی کے بجائے آرڈیننسز کی توسیع سے نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کی مخالفت سے حکومت اقدام اخلاقی جواز کھو چکی ہے۔ بہتر ہو گا مسلم لیگ ن کی حکومت امورمملکت آرڈیننسز سے چلانے کے بجائے آئینی انداز میں قانون سازی کرے تاکہ اپوزیشن سمیت کسی جماعت کو حکومتی اقدامات پر اعتراض کا موقع نہ مل سکے۔