دنیا کی معلوم تاریخ میں کبھی بھی بین الاقوامی تجارت و باہمی معیشت دفاع اور عسکری سرگرمیوں سے علیحدہ نہیں رہی۔چاہے وہ ولندیزی ہوں یا پرتگالی یا پھر انگریز ، سامراجی اقوام نے ہمیشہ ہی پہلے تجارت اور پھر اپنے تجارتی مفادات کو تحفظ و توسیع دینے کے لئے بالآخر عسکریت پسندی کا سہارا لیا۔ کالونیاں بنائیں اور مقامی وسائل پہ قبضہ کرکے انسانیت کی توہین و تذلیل کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ آج بھی انہیں تحریر کرتے قلم کانپتا ہے۔جب سامراج کے مظالم حد سے بڑھے اور انسان اپنی ہی زمینوں پہ اجنبی ہوگئے تو ستائے ،کچلے اور دبائے گئے مظلوم انسان کو ایک نظریئے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ نظریہ کارل مارکس اور اینگلزنے دیا جس نے ایک عرصہ انسانوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کمیونزم کے مرکز سوویت یونین میں اسلام کے پیروکاروں پہ لینن کی سرزمین ویسی ہی تنگ رہی جیسا کہ سامراجی کالونیوں میں مظلوم عوام پہ ان ہی کی زمین تنگ کردی گئی تھی۔ برصغیر میں برطانوی سامراج کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار عوام کے دلوں میں ابلتے لاوے نے جب 1857 ء میں جنگ آزادی کا روپ دھار لیا توکارل مارکس نے ان کے حق میں آواز اٹھائی اور کہا کہ وہ اس وقت تک آزادی حاصل نہیں کرسکتے جب تک برطانیہ میں پرولتاری ، بورژوا طبقے کا تختہ نہیں الٹ دیتے۔بادی النظر میں ایسا ہوا نہیں، یعنی برطانیہ سرمایہ دار تھا اور رہا،وہاں کبھی کمیونزم نہیں آیا نہ ہی برطانوی پرولتاریوں نے اہل فرانس کی طرح تخت و تاج اچھالے پھر بھی برصغیر تقسیم ہوگیا اور ایک ایسا ملک پاکستان وجود میں آیا جو نوآبادیاتی نظام کا حصہ ہونے اور سامراج کے استحصال کا شکار ہونے کے باوجود منطقی طور پہ کمیونزم نہیں اسلام کے نام پہ بنا۔ برطانوی سامراج سے آزاد ہونے والا کمیونسٹ نہیں اسلامی ملک ، جس کی ماہیت و ساخت دنیا بھر کے ممالک سے بالکل مختلف ہے ۔ اس کی وجوہات پہ غور کئے بغیر اور خلافت عثمانیہ سمیت اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کو نظر انداز کرکے ہی وہ رویہ اپنایا جاسکتا تھا جو پہلے کمیونزم کے نام لیواؤں نے اور بعد میں ان کی لبرل باقیات نے اس کی کثیر آبادی کے ساتھ روا رکھا جو مذہب کو حرز جان سمجھتی ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ تقسیم برصغیر کی وجوہات سماجی سے زیادہ سیاسی تھیں ورنہ وہاں انقلاب فرانس یا بالشویک انقلاب رونما ہونے کے تمام اجزاموجود تھے لیکن سامراج کے ستائے مظلوم عوام نے جد وجہد آزادی کا مارکسی راستہ اپنانے کی بجائے مذہب کے نام پہ علیحدگی حاصل کرلی اور کسی بھی نظریاتی جدوجہد میں قربانیاں دینے کا اپنا ریکارڈ بنایا۔ یہ بات بھی تھی کہ طاقت کا توازن دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ سے امریکہ منتقل ہورہا تھا ۔یہ کہنا بھی درست ہے کہ چونکہ صنعتی انقلاب رونما ہوچکا تھا اور اسی صنعتی انقلاب نے ہی تیسری دنیا کے قدرتی وسائل جن سے وہ ٹیکنالوجی اور معاشی وسائل کی عدم موجودگی کے باعث خود لطف اندوز نہیں ہوسکتے تھے، مزدور دنیا سے یورپ منتقل کرنے کا کام انجام دیا جس کے نتیجے میں مزدور طبقہ استحصال کا شکار ہورہا تھا اس لئے اس نے کمیونزم میں پناہ ڈھونڈی۔ لیکن بالشویک روس کے عظیم رہنما ولادی میر لینن نے اشتراکی روس کی سوویت کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اشتراکیت ، سوویت طاقت اور ملک میں بجلی کی ترسیل کا مجموعہ ہے۔اس سے ان کی مراد روسی مزدوروں اور کسانوں تک بجلی پہنچانا تھا تاکہ وہ پیداوار میں اضافہ کرسکیں۔انہوں نے روسی پرولتاریہ کو بجلی کی افادیت سمجھاتے ہوئے کہا کہ یہ شہروں اور دیہاتوں کا فرق مٹائے گی اور معیار زندگی بلند کرے گی۔ ان کے خلوص پہ شک کسی سرمایہ دار کو ہی ہوسکتا ہے۔ یہ روس کے اندر صنعتی انقلاب کا ایک قدم تھا جس نے بالآخر اسی تفریق کو پیدا کرنا تھا جو بعد میں پیداہوکر رہی ۔ کمیونسٹ اشرافیہ کی اصطلاح یوں ہی تو وجود میں نہیں آئی تھی۔ جب تحریک کے لئے خون دینے والے عوام ایک ایک ٹماٹر کے لئے گھنٹوں لائن میں لگے ہوتے تو کمیونسٹ اشرافیہ اپنے لیئے مخصوص پر تعیش محلات میں ان تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہوتی جن پہ لعن طعن کرکے وہ برسراقتدار آئی تھی۔سوویت روس کے انہدام کی وجوہات میں سے ایک یہی طبقاتی تفریق تھی جو تیزی سے بڑھتی جارہی تھی۔اس دوران جب آزاد معیشت اور لبرل ازم کو جمہوریت کی خوشنما پیکنگ میں آزاد اقوام کے ہاتھوں میں تھمایا گیا تو انہوں نے اپنی عوام کو رائج اصطلاح کے مطابق ریلیف دیا۔انہیں نہ صرف ریاستی چھتری تلے تحفظ فراہم کیا، روزگار اور تعلیم دی بلکہ آزادی اظہار کا جھنجھنا بھی تھما دیا تاکہ دنیا بھر میں اس نئے ورلڈ آرڈر کی تبلیغ بلا تعطل ہوسکے اور اس کے راستے میں عوامی غیظ و غضب حائل نہ ہو جو ایک متبادل نظریے کے طور پہ پھیلایا جارہا تھا۔ اس نظریے کی خاص بات یہ تھی کہ سامراج سامراج نہیں کہلاتا سرمایہ کار ملک کہلاتا تھا اور نوآبادی نوآبادی نہیں کہلاتی بلکہ مارکیٹ کہلاتی تھی۔یہی آزاد معیشت اور لبرل مارکیٹ نیو ورلڈ آرڈر کی دین ہیں۔ بظاہر تو یہ تصور نہایت خوش کن معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کا ہر ملک دوسرے ملک کے ساتھ تجارت اور معاشی تعلقات میں آزاد ہو لیکن درحقیقت ایسا ہوتا نہیں ہے۔جب آپ کی معیشت کا حجم ایک دوسرے کے برابر نہیں ہے تو حصہ برابر کیسے ہوسکتا ہے۔ یہ غیر فطری اور مساوی تقسیم کارل مارکس اور اینگلز کے منشور میں تو ہو سکتی ہے لیکن عملی طور پہ دنیا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے محاورے سے ہنکائی جاتی ہے۔ یہ لبرل معیشت کسی طور سامراجی حکومتوں سے کم نہیں ہے۔ سرمایہ دار اور معاشی طور پہ مضبوط ملکوں بالخصوص امریکہ اور یورپ نے غریب ملکوں میں ان ہی کے وسائل سے ان ہی کی افرادی قوت کے ساتھ اپنا سرمایہ لگا کر کم قیمت اشیائے ضرورت و تعیش بنائی ہی نہیں تخلیق بھی کیں اور دنیا بھر میں انہیں کئی گنا قیمت پہ فروخت کیا جبکہ بندہ مزدور کے اوقات تلخ ترین ہوتے گئے۔ سامراج کی جگہ ان ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے لے لی جو تیسری دنیا کے ملکوں سے سرمایہ سمیٹ کر اپنے ملکوں میں لے جانے لگیں ۔مہذب دنیا کامنہ بند کرنے کے لئے ساتھ ہی سوشل ریسپانسیبلیٹی پروگرام ان ہی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے شروع کئے اور این جی اوز کا جال بچھا دیا تاکہ کم اجرت پہ ان کمپنیوں کی فیکٹریاں اپنے خون سے چلانے والی عوام بدکنے نہ پائے۔ انہیں جس ملک پہ کسی بھی نظریئے کا گمان ہوا اس پہ پابندیاں لگائیں۔ وینزویلا‘ ایران‘شمالی کوریا‘ کیوبا بولیویا اور افغانستان پہ تو یہ حملہ آور ہی ہوگئے جو ان کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نظریاتی چیلنج بن کر ابھر رہا تھا۔جہاں یک چشم خلیفہ سوکھی روٹی کھاتا ہو اور ٹوٹی چپل پہنتا ہو اور فوری انصاف دیتا ہو، وہ اس منظرنامے میں کہاں فٹ ہوتا تھا۔ جن ملکوں نے لبرل معیشت کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے انہیں اپنی امان میں لے لیا گیا۔ ان کے تحفظ کے لئے دفاعی معاہدے کئے اور انہیں ان معاہدوں میں خوف وترغیب سے شامل کیا۔ برصغیر میں ان کی قسمت سے ایسے دو ممالک انہیں حاصل ہوگئے جو ایک دوسرے سے خوفزدہ تھے اس لئے یہاں سوویت روس بھی کھل کر کھیلا اور سرمایہ دار امریکہ بھی۔ سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدے کئے گئے جن میں پاکستان واحد جنوبی ایشیا ئی ملک تھا۔ادھر نیٹو تشکیل دی جاچکی تھی جو بظاہر کمیونزم کے پھیلاو ٔ کو روکنے اور سوویت روس کی جارحیت سے اپنے حواریوں کو بچانے کے لئے بنائی گئی۔ عجیب بات ہے کہ سوویت روس کے انہدام کے بعد سرمایہ دار روس سے اپنے تحفظ کے لئے بالٹک ریاستیں آج بھی نیٹو کو دہائیاں دیتی ہیں۔ سرمائے کو سرمائے سے خطرہ جو ہے ۔اس بہانے نیٹو کو روس کے قریب رہنے اور اسے لگام ڈالنے کا موقع ملا۔ دنیا بھر میں ان سرمایہ دار ملکوں نے اپنے زیر اثر آنے والے ملکوں میں بحری اور بری عسکری اڈے قائم کئے ۔ ان کا مقصد کسی ملک پہ حملے سے زیادہ اپنے معاشی مفادات کا تحفظ رہا۔یہی نیٹو بعد میں مسلم دنیا کے وسائل پہ قبضہ کرنے کے لئے کسی نہ کسی بہانے حملہ آور ہوتی رہی یوں لبرل معیشت کو عسکریت کا سہارا مل گیا۔ جہاں امبارگو اور پابندیوں سے کام نہ چلا وہا ں براہ راست حملے میں کوئی قباحت نہ سمجھی گئی۔خلافت عثمانیہ کے حصے تو پہلے ہی کرلئے گئے تھے فرانس برطانیہ اور روس اس کے تیل سے غسل صحت منارہے تھے۔سوویت روس کے انہدام کے بعد لبرل معیشت کو کھلا میدان مل گیا۔آج دنیا اسی آزادمعیشت اور لبرل مارکیٹ کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے جہاں گنتی کے چند ممالک باقی تمام دنیا پہ اپنے معاشی حجم اور عسکری برتری کے بل بوتے پہ ان کے اپنے وسائل سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔کل کے کمیونسٹ آج کے سرمایہ دارانہ نظام کے سرخیل بنے ہوئے ہیں ۔انہیں بغیر اسلحہ استعمال کئے کسی بھی ملک کی معیشت سے فائدہ اٹھانے میں ید طولیٰ حاصل ہے یعنی کہ اس قدر کہ سکہ بند سرمایہ دار سہم کر رہ گئے ہیں۔