حکومت نے جس مشغلے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کیں، وہ ڈراؤنا خواب آج بھی پی ٹی آئی کی صورت میںپی ڈی ایم اتحاد کے سامنے کھڑا ہے۔ جس قدر مہنگائی ان حکمرانوں نے کی، ایوب خان کے دور میں ہوتی، وہ بھی گیارہ سال درکنار؛ ابتدائی 15 ماہ مکمل نہ کرتے مگر جب مقصد کچھ خاص ہو، نیب قوانین میں ترامیم جیسے مشغلے ہوں تو پھر زبان زد عام کیوں نہ ہو: نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن… بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے۔ کوئی ایک کارنامہ حکومت بتا دے، جس پر تالیاں پیٹنے کو دل چاہے، اوپر سے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ قرضوں کی زندگی سے ہمیں نجات حاصل کرنا ہوگی، اب ہم نے دن رات محنت کرنی ہے، یہ راگ سنتے سنتے عوام کے کان پک چکے ہیں جبکہ قرضوں کا بوجھ کاندھوں پر اس حد تک لاد لیا گیا کہ اب اس کے بغیر گزارہ ممکن نہیں ۔ ناجانے کیوں ہر جانے والی حکومت قرضوں سے نجات کا راگ الاپنے لگتی ہے اور دن رات محنت کرنے کا عزم کرتی ہے، اس کی قوالی اگر اقتدار کے دنوں میں عمل کی صورت میں کی جائے تو شائد اب تک ہمارے حالات سدھر چکے ہوتے۔ ن لیگ گزشتہ 35 سال سے اقتدارمیں ہے، نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے۔ موجودہ وزیراعظم تین مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے اور تاحال فرما رہے ہیں کہ اب ہمیں دن رات محنت کرنا ہوگی، قرضوں کی زندگی سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ 35 سال بعد انھیں کم از کم اعلان کر رہے ہونا چاہیئے تھا کہ ہم نے ملک کو قرضوں والی زندگی سے نجات دلائی اور ہم نے دن رات محنت کی لیکن ایسا کہیں کچھ عملی طور پر نظر نہیں آتا البتہ بتایا جاتا ہے کہ اس مرتبہ نواز شریف آئے تو یہ کر دینگے، وہ کردینگے یا بصورت دیگر دعوے کیے جاتے ہیں کہ 2018ء تک نواز شریف کے دور اقتدار تک ملک کی حالت بہت بہتر تھی، ناجانے کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں، جسے عوام دیکھنے سے قاصر رہے۔ وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان معاشی چیلنج سے گزر رہا ہے، پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کی کوشش کی، دنیا میں تیل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، اگر 15 ماہ میں مہنگائی کی شرح کو 16 فیصد سے 40 فیصد تک لے کر جانا تھا اور آخر کار یہ بتانے کے علاوہ کچھ نہیں تھا تو پھر پی ٹی آئی کی حکومت کیخلاف مہنگائی مارچ کیوں؟ مہنگائی کے خاتمے کے نام پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے کٹھ کی حکومت کیوں؟ کیا فقط اتنا سمجھنا مقصود تھا کہ مادر وطن کی تمام کی تمام سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور اندرون خانہ ان کی حقیقت آمریت کی سیاہ آئینہ دار ہے۔ سادہ الفاظ میں حکومت کی کارکردگی پر اتنا تبصرہ کافی ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد نے ملک کی معیشت دونوں کا جنازہ نکال دیا گیا۔ رواں مالی سال کے دوران بھی ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 22 فیصد کمی سامنے ہوئی ہے اور چند دنوں کے مہمان حکمران تاثر دینے میں مگن ہیں کہ ہم نے ملک کی معشیت کو بچا لیا، تحفظ ایسا ہے تو ان کی نظروں میں بگارڈ کیسا ہوگا؟ سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ 15 ماہ کے اندر پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا، ہمارے پاس تیل اور گیس نہیں مگر زرخیز زمین ہے، اب پاکستان کو معاشی ترقی کیلیے آگے لے کر جانا ہے، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اپنے وسائل سے ملک میں خوشحالی کا انقلاب لا سکتے ہیں۔ پاکستان کو معاشی طور پر کھڑا کرنے کیلیے پروگرام بنایا ہے۔ پہلے نمبر پر زراعت، دوسرے پر آئی ٹی اور پھر معدنیات ہیں۔ اب اس پر کیا کہیں۔ چند یوم قبل ہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا۔ 15 ماہ میں زر مبادلہ کے ذخائر کی درد ناک کہانی سب کے سامنے ہے۔ معشیت کی زبوں حالی اور عام آدمی کی خستہ حالی کا سارا فسانہ تاحال معشیت اور عام آدمی کو درپیش ہے لیکن اس پر بھی نعرہ زنی ہو کہ معشیت کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا گیا تو اس طرح کی کشمکشِ کے بارے میں بجا کہا گیا: روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا! جہاں تک وطن عزیز کے زرخیز زمین سے مالا مال ہونے کا معاملہ ہے، اسے معمہ بنایا جاچکا، کاشتکار کی حالت زار ان 15 ماہ میں بد سے بد تر ہوگئی۔ سیلاب کے حوالے سے این ڈی ایم اے کی وارنگز کے باوجود حکومت بدستور گزشتہ برس سیلاب سے متاثر زمینداروں اور زرخیز زمینوں کی بحال کاری کا فریضہ سر انجام دینے سے قاصر ہے اپنے وسائل سے جنہوں نے مادر وطن کو شاہراہِ ترقی پر گامزن کرنا ہو، وہ ایسی بے نیازی اور عدم توجہی جیسا سلوک برتنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، جس کا عملی مظاہرہ 15 ماہ میں کیا گیا۔ ملک کو معاشی ترقی پر لے جانے کی تڑپ ہوتی تو صرف پروگرام نہ بنتے، اس پر عملدرآمد کو یقنی بنایا جاتا، جس زراعت کو وزیراعظم ترقی کے پروگرام میں پہلے نمبر پر گردان رہے ہیں، اس کی حالت جھوٹے کاشتکار کی حالت زار بہتر بنائے بغیر ممکن نہیں، جب تک ایک جھوٹا کاشتکار اپنے بیٹے کو خوشی سے کاشتکار بنانے کا نہیں سوچے گا، شعبہ زراعت ترقی نہیں کرسکتا۔ وڈیروں، جاگیر داروں کو ٹیکس چھوٹ اور دیگر مراعات زرعی ترقی نہیں کہلوا سکتے۔ آئی ٹی دنیا بھر میں ابھرتی ہوئی معشیت ہے جبکہ حالیہ وفاقی بجٹ میں فری لانسر پر ٹیکس کی حد بڑھا دی گئی، پے پال جیسی متعدد ضروری سہولیات وطن عزیز میں آئی ٹی کے شعبہ سے منسلک احباب کو میسر نہیں اور تادم تحریر ایسی کوئی مجوزہ پالیسی بھی نظروں سے گزر نہیں سکی لیکن دل کو بہلانے کیلئے یہ خیال اچھا ہے ۔ تیسرے نمبر پر معدنیات کا نعرہ بھی محض نعرہ مستانہ ہی ہے وگرنہ پاکستان کو جتنی معدنیات سے اللہ رب العزت نے نواز رکھا ہے، اس کا اندازہ گوگل کے ذریعے ریسرچ کر کے کوئی بھی لگا سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے کہ کتنی ترقی کی جاسکتی تھی اور ہے مگر ہم نے ترقی کیوں نہیں کی، یہ سوال بہرحال موجود ہے۔