پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد اور کلمہ طیبہ کے نام پر قائم ہوا مگر بدقسمتی سے یہ مسلم قومی ریاست کی حیثیت اختیار نہ کر سکا۔حالانکہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر علیحدہ وطن حاصل کرنے میں بنگال کے عوام نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا۔ مسلم لیگ بنگال میں بنی۔قرارداد پاکستان مولوی فضل الحق نے پیش کی مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ کے خود غرضانہ رویوں نے مسلمانوں کو مسلمانوں کا دشمن بنا دیا۔ انہیں قوموں، برادریوں، لسانی اور نسلی، سماجی اور معاشی اور سیاسی تفاوت کی بنیاد پر تہہ در تہہ تقسیم کر دیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اس دکھ اور تکلیف کو حرز جاں بناتے ہوئے عہد ساز دانشور اور صحافتی شخصیت محمو شام اپنی تازہ تصنیف "روبرو" کے دیباچہ میں خون کے آنسو بہاتے اور تاریخ کے چشم دیدہ گواہ کی حیثیت سے ملک کے بزرجمہروں کے ضمیر کو جھنجھوڑ تے ہوئے پوچھ رہے ہیں کہ آج آدھا ملک گنوا کر بھی ہمارے عوام کے حالات کیوں نہیں بدلے ہیں ‘‘ غربت، بیروزگاری دہشت گردی، سٹریٹ کرائمز، سماجی اور معاشی تفاوت، سیاسی بحران اور سب سے بڑھ کر مہنگائی اور غربت کا عزاب ختم ہونے کا نام کیوں نہیں لے رہا ہے شب ڈھلتی تو دکھائی دے رہی ہے مگر دن کا اجالا نظر سے کو سوں کیوں دور ہے۔ اب کرپشن پاکستان کا مسئلہ نمبر ون بن گیا ہے ہر نئی حکومت سابق حکومت کے عہدیداران کو تو لوٹ مار کا ذمہ دار قرار دیتی ہے مگر اپنے دور اقتدار میں ہونے والی کرپشن سے صرف نظر کر دیتی ہے ۔اب اس درمند امام صحافت کو کون بتائے کہ اس کرپشن نے ہی تو نو دولتیوں کو اس ملک کے اقتدار اور وسائل کا مالک بنا یا ہے۔ جن کے پاس کچھ نہیں تھا وہ متروکہ وقف املاک سے شروع ہونے والی کرپشن، بنکوں کے قرضوں کے رائٹ آف، منی لانڈرنگ اور رئیل اسٹیٹ کے فرنٹ مینوں کے ذریعے نسل در نسل دولت کے انبار لگانے کے بعد بھی ھل من مزید کے پیاسے ہیں ۔اقتدار اور طاقت ان کے گھر کی باندی ہے عدل و انصاف وہی ہے جو وہ سمجھتے ہیں۔ نیب کے ایک چیرمین ایڈمرل فصیح بخاری نے دس سال بیشتر کہا تھا کہ پاکستان کے ریونیو اکٹھے کرنے والے اداروں میں روزانہ 16 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے یعنی سالانہ چھ ہزار ارب روپے کی کرپشن اور آج لگ بھگ اتنا ہی بجٹ کا خسارہ ہے مگر جن طاقت ور نو دولتیوں نے اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے ہیں وہ کیونکر کرپشن کو ختم ہونے دیں گے۔ محسن نقوی اپنی کابینہ کے آخری اجلاس میں بتا رہے تھے کہ ان کے سٹاف کو ایک صاحب ایک پوسٹنگ کے لیے 15 کڑور کی آفر کر رہے تھے ۔قانونی اور غیر قانونی مراعات اور اعلی عہدے پر براجمان ہو کر ذاتی اور گروہی مالی مفادات پورا کرنا تو پاکستان کے اعلی طبقے کا استحقاق سمجھا جاتا ہے وہ اسے کرپشن تھوڑا کہتے ہیں۔ با اختیار پوزیشنیں حاصل کرکے کاروبار کرنا جائز خیال کیا جاتا ہے۔ اپنی اور خاندان کی شوگر ملز، ٹیکسٹائل اوررئیل اسٹیٹ اور تمام تر کاروباروں کو تحفظ دینے کے لیے تو سیاست کا پیشہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی حبیب جالب نے نہیں کہا وہی حالات ہیں فقیروں کے دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے ہر بلاول ہے دیس کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے 10 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے نیچے سسک سسک کر سانس لے رہے ہیں اور موت کے منتظر ہیں۔ 2 کروڑ افراد بے روزگار ہیں۔ ایسے میں بھوک ہی سب سے بڑی حقیقت بن گئی ہے ۔ قوم بننا ہے یا نہیں یہ غریب اور مفلس کیسے سوچ سکتا ہے۔ محمود شام کی بات سے کون اختلاف کر سکتا ہے کہ ’’پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اقتصادی تباہ کاری ہے اور قرضوں کا بوجھ اسقدر بڑھ گیا ہے کہ ہمارے ریونیو کا نوے فیصد ڈیٹ سروسنگ کی نذر ہو رہا ہے ۔حکومتی ڈھانچہ آج بھی مختلف اسباب کی بنا پر وفاقی اور صوبائی سطح پر اختیارات کا محور ہے۔ کسی بھی جماعت نے اقتدار میں آکر مقامی سطح پر مضبوط حکومتیں قائم نہیں ہو نے دی ہیں۔‘‘ محمود شام صاحب کا حسن گماں ہے کہ لوگ حکومت سے محبت کریں یا نفرت، مملکت کو اپنا سمجھتے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ معاشرہ کفر پر قائم رہ سکتا ہے نا انصافی پر نہیں۔ جب ریاست عدل و انصاف کی بجائے پسند اور ناپسند پر اپنی کٹھ پتلیوں کو اقتدار میں اعلیٰ عہدوں پر لائے گی تو کیسے عوام کی اکثریت شکوہ کناں نہیں ہو گی ریاست ماں جیسی بنے، عوام جان نچھاور کر دیں گے۔ پاکستان میں بہت سارے تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان ہیں جن کے اندر نگرانوں سے زیادہ اہلیت اور قابلیت پائی جاتی ہے مگر مملکت کا نظام میرٹ کی بجائے اقربا پروری پر چلے گا تو عوام کا اجتماعی شعور ان سیاسی جماعتوں کو ووٹ نہیں دے گا جو ان کی چہیتی ہو نگی ۔عوام کو ان پڑھ اور گنوار تصور کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ہم بنگالیوں کو ٹکے کا انسان نہیں سمجھتے تھے ۔آج ان کے ٹکے نے ہمارے روپے کی کوئی اوقات نہیں چھوڑی ۔ ہمیں سبق سیکھنا چاہئے تھا کہ عوام کے اجتماعی مینڈیٹ کا احترام ہی مملکت کو استحکام دیتا ہے۔ اگر مملکت کے اعلی عہدیدارن کو عوام سے احترام حاصل کرنا ہے اور اس ملک کی سالمیت کی حفاظت کرنی ہے تو انہیں پاکستان کے عوام کی اجتماعی رائے کو تسلیم کرنا ہو گا ۔اگر چہ شام صاحب اس پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں کہ لوگ سیاست دانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ یقیناً ایسا ہی ہے کہ وہ سیاست دان جو عوام کو دھوکہ دیتے ہیں، اپنی سیاسی وفاداریاں بدلتے ہیں دھاندلی سے جیتتے ہیں تو عوام ان کو گالی دیں گے ۔ مگر اس تعفن زدہ ماحول میں حافظ نعیم اور ڈاکٹر نثار چیمہ جیسے گوہر نایاب بھی موجود ہیں جو زبردستی کی جیت لینے سے صاف انکار کر دیتے ہیں انہی کے دم سے پاکستان میں اخلاقی قدروں کی پاسداری ہے ۔ جو بے ایمانی سے فارم 47 پر کامیاب ہوئے ہیں کیسے وہ اور ان کے سہولت کار رمضان المبارک کا آخری عشرہ منانے خانہ کعبہ پہنچ رہے ہیں۔ لہٰذا شام صاحب کی زندگی میں تو یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا کہ پاکستانی ایک قوم بن جائیں کیونکہ اشرافیہ نے اپنی روش بدلنی نہیں ہے ۔ عوام کی اکثریت نے اسی طرح سسک سسک کے زندگی کے دن پورے کرنے ہیں ۔