تحریک انصاف چھوڑنے والوں کی لائن لگی ہوئی ہے، یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ مر جائیں گے مگر عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ۔ سابق وفاقی وزراء مخدوم خسرو بختیار، فردوس عاشق اعوان، فواد چوہدری ، ایم این ایز و ایم پی ایز قطب فرید کوریجہ،ملک قاسم آف شجاع آباد، سابق ایم پی ایز فیاض الحسن چوہان ، ممتاز مہاروی ، آصف موہل ، عباس جعفری ، ظہیر الدین علیزئی کے علاوہ بہت سے دیگر لوگ ہر آئے روز وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں۔ وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔’’ تم چلو اُدھر کو، ہوا ہو جدھر کی ‘‘یہ ایسا مصرع ہے جو ہر ایسے موقع پر فٹ آتا ہے۔ دراصل جانے والے جس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے واپس جا رہے ہیں، کل کوئی تحریک انصاف میں شامل ہوتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ کپتان نے ایک اور وکٹ گرا لی ، اب شاید یہ کہا جائے گا کہ کپتان نے ایک اور وکٹ گروا لی۔ اب تو تحریک انصاف کے سمجھدار دوست میری اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ عمران خان کے ہوتے ہوئے تحریک انصاف کو کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں ۔ وفاداریاں تبدیل کرنے کے سیزن میں فصلی بٹیرے بھی متحرک ہو گئے ہیں، سرائیکی وسیب میں تیتر اور بٹیر کا شکار بہت ہوتا ہے، شکاری نئے جال لیکر آ گئے ہیں ، جال میں پھانسنے کے لئے ایک ’’لاوا تیتر ‘‘اپنی قوم کو پھنسوانے کیلئے تیار کیا جاتا ہے، شکار گاہ پر تیتر ’’ترہ کو کو ، ترہ کو کو ‘‘ کی آواز دیتا ہے ، سارے تیتر جال میں آ جاتے ہیں ، اس طرح لاوے تیتر کو غدار کہا جاتا ہے، جہانگیر ترین وسیب میں ایک مرتبہ پھر متحرک ہو چکے ہیں ، اللہ قوم کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ (آمین) اقتدار پرست سیاستدانوں کو کرسی کی پڑی ہے۔ غریبوں کے بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا، مہنگائی سے غریبوں کا ستیاناس ہو گیا ہے، وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ سمجھ نہیں آتا منہ چھپا کر کہاں جائوں؟ وزیر اعظم کی طرف سے مہنگائی کا اعتراف کافی نہیں ہے بلکہ مہنگائی کے خلاف اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے اتنا کہہ دینا کہ مہنگائی سابقہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ورثے میں ملی اس لئے غلط ہے کہ عمران خان کے دور میں غریبوں کے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہوا تو انہوں نے بھی اس کا موجب اپنے پیشرئوں(میاں برادران) کو قرار دیا تھا جبکہ سوال اتنا ہے کہ عوام کی بہتری کے لئے آپ نے کیا کارنامے سر انجام دئیے؟ میں واضح کہتا ہوں کہ اقتدار پرست جماعتوں میں سے آج تک کسی نے غریب عوام کا نہیں سوچا۔ بہاولپور آیا ہوا ہوں ۔ چولستان کانفرنس کرا رہے ہیں، تحریک انصاف کی قیادت روپوش ہے، وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی ڈاکٹر اطہر محبوب مہمان خصوصی ہیں ، سردار عثمان خان عباسی کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی مگر انہوں نے نامعلوم مقام سے معذرت بھجوائی کہ تحریک انصاف کے رہنمائوں کی پکڑ دھکڑ کے اس موسم میں آنا مشکل ہے۔ سمیرا ملک صاحبہ نے یہی کہا ہے ، البتہ تقریب میں دیگر دوست اور میرے آبائی گائوں دھریجہ نگر سے بزرگ اہل قلم اور خطاط آئے ہیں۔ خطاطی کا ذکر ہوا ہے تو مجھے اپنا گزرا زمانہ یاد آ گیا ہے، بھولی بسری یادوں کو دہرا رہا ہوں ، ابن کلیم کی کتاب میں ایک عنوان ’’ خانوادہ قادریہ دے خطاط ‘‘ کا ہے، خطاطوں میںجہاں بہت سے اور بھی معتبر نام ہیں وہیں ایک نام منظور احمد احقرکا بھی ہے، یہ وہ نام ہے جنہوں نے دھریجہ نگر کے لوگوں کو کتابت سکھائی اور کاتب بنایا۔ قصہ یوں ہے کہ حاجی منظور احمد احقر کی بہن کی شادی ہمارے چچا جام اللہ ڈتہ دھریجہ کے ساتھ ہوئی ، حاجی صاحب سال میں ایک دو دفعہ دھریجہ نگر آتے ۔ سب سے پہلے دھریجہ نگر کے غلام یٰسین فخری ،حاجی منظور احمد احقر کے شاگرد بنے ۔ انہوں نے نہ صرف اردو اور سرائیکی خطاطی میں بہت نام کمایا بلکہ سندھ جا کے انہوں نے سندھی خطاطی کو بھی عروج بخشا۔ غلام یٰسین فخری بہت بڑے خطاط ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے ادیب ، لکھاری اور ملک کے نامور صحافی بھی تھے ۔ انہوں نے بڑے قومی اخبارات میں کام کیا اور اپنا سرائیکی رسالہ ’’ سچار‘‘ کے نام سے شائع کرکے سرائیکی ماں بولی کی بہت بڑی خدمت کی ۔ میرے استاد مقبول احمد دھریجہ نے بھی منظور احمد احقر سے خطاطی کا کام سیکھا اور آگے اس فیض کو عام کیا، ان کے شاگردوں میں عطا اللہ طارق دھریجہ ، محمد شفیع فدا دھریجہ بڑے نام والے خطاط تھے ،دھریجہ نگر کی معروف روحانی شخصیت معروف عالم دین حضرت مولانا محمد امان اللہ دھریجہ چشتی ؒجن کا خط پہلے سے بہت خوبصورت تھا وہ بھی خطاطی کے میدان میں آئے اور انہوں نے منیر احمد دھریجہ ،شبیر احمد دھریجہ، محمد شاہد دھریجہ کو خطاطی سکھائی ، ان کی خطاطی نے بہت بڑا نام کمایا۔ میں خود اتنا بڑا خطاط تو نہ بن سکا البتہ بہت سے نوجوانوں کو خطاطی کے میدان میں آنے کی ترغیب دی ، ان میں خانپور کے معروف نعت خواں قاری منظور احمد نقشبندی ، جاوید اقبال ، لطیف غوری اور پروفیسر رئیس نذیر احمد کی خطاطی پر مجھے فخر ہوا۔ خان پور کے بہت بڑے صنعتکار چوہدری سلیم بھلر کی محبت کہ وہ مجھے استاد کہتے ہیں ، جب وہ بچے تھے تو لکھائی خوبصورت بنانے کیلئے میرے پاس جھوک خانپور کے دفتر آتے تھے ۔ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ حاجی منظور احمد احقر پر ہمیں فخر ہے ، وہ صرف قادری یا دھریجہ خاندان کے نہیں سارے وسیب کے محسن ہیں ۔ ان کے بھائی نور احمد ہمراز اور فدا حسین قادری بھی وسیب کے فخر ہیں ، میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ دھریجہ نگر کے لوگ بڑے امیر یا جاگیردار نہ تھے ، سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی نہ تھے ، لوگوں کو سرکاری نوکری تو ویسے بھی نہیں ملتی ، اکثر بے روزگار تھے ، خطاطی کے میدان میں آنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگ طباعت و اشاعت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے ۔ بندہ ناچیز دھریجہ نگر کا پہلا آدمی تھا جس نے ملازمت کے بعد سب سے پہلے اپنا چھاپہ خانہ رحیم یارخان میں قائم کر کے دھریجہ نگر کے بہت سارے نوجوانوں کو اپنے ساتھ کام میں شامل کیا ، رحیم یارخان کے ساتھ ساتھ خانپور میں دھریجہ پرنٹرز ، لیاقت پورمیں بھی چھاپہ خانے قائم کئے، آج دھریجہ نگر کی آدھی آبادی طباعت و اشاعت اور صحافت کے شعبے سے وابستہ ہے۔