جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے چپ تھے وہ سوچ کہ انہیں اختیار ہے جب کچھ نہ بن پڑا تو بشر بولنے لگے آج تو میرے سامنے ایک شاہکار سفرنامہ ہے۔ محترمہ تسنیم کوثر کا لکھا ہوا۔کچھ روز قبل بھیجا گیا یہ ارمغان میرے ہاتھوں کو گرمائش اورآنکھوں کو طراوٹ ب بخشتارہا۔ تسنیم کوثر نے تو مہاتیر کے وطن ملائیشیا کے شب و روز اور جغرافیہ میں وقت کو پھول بوٹے لگائے ہیں۔میں انگریزی ادب ماسٹر کر رہا تھا تو ناول کی تعریف میں کہتے تھے کہ اس میں زندگی دھڑکتی ہے۔ کہانی جزیات کے ساتھ تجسیم ہوتی نظر آئے۔ کردار متحرک ہوں اور مصنف بھی انہی کرداروں میں سے ایک ہو۔ مجھے تو تسنیم کوثر کے اس سفرنامے مجھے اس دیس جانا ہے میں ناول بھی نظر آیا اور سفرنامے کی روح بھی کہ وہ خود ہی سفر نہیں کرتیں قاری کی انگلی بھی نہیں چھوڑتی ۔ میں تو روٹین کی ورق گردانی کرنے بیٹھا تھا مگر اس طلسمی سی تحریر نے تو پکڑ اور جکڑ لیا۔ سب سے پہلی بات کہ تحریر میں ایک بے تکلفی‘ سلامت اور شاعرانہ انداز بیاں۔ ایسے ہی نہیں سلمیٰ اعوان جیسی مہا تخلیق کار نے تسنیم کوثر کا سفرنامہ کہانی ان دنوں کی خرید کر پڑھا تھا۔ بھارت کا یہ سفر نامہ اظہر جاوید کے رسالے تخلیق میں سلسلہ وار شائع ہوا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں تو تسنیم کوثر کو ایک شاعرہ کے حوالے سے جانتا تھا اور وہ میرے ٹی وی پروگرام میں کئی مرتبہ آئی بھی تھیں۔ ان کا ایک شعر ان دنوں بڑا وائرل ہوا اور اب بھی ایک مہکتا ہوا حوالہ: ہم شہر میں تیرے کسی خوشبو کی طرح ہیں محسوس تو ہوتے ہیں دکھائی نہیں دیتے پھر ان کے افسانے نظر نواز ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ چند گنی چنی اچھی فکشن رائٹرز میں ہیں۔ مثلاً ان میں بشریٰ رحمن‘ سلمیٰ اعوان‘ بشریٰ اعجاز‘ شبہ طراز‘ طاہرہ اقبال‘ نیلم احمد بشیر شامل ہیں۔ ملائیشیا کے سفر نامے کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہاں کا باشندہ بھی اتنا کچھ نہیں جانتا ہو گا جتنا تسنیم کوثر نے جان لیا۔ اصل میں وہ اپنی بیٹی کو ملنے گئی تھیں اور وہ سارا ملائیشیا ہی وہاں سے اٹھا لائیں۔ ملائیشیا تک ایک لمحے کے لیے بھی قاری کو احساس نہیں ہوتا کہ وہ بے خیالی میں تحریر میں محو چلا جا رہا ہے حتیٰ کہ محترمہ اپنی بیٹی کے گھر قدم رکھتی ہیں تو س سامنے لکھا ہوا تھا Welcome Ammi Jan وہ لکھتی ہیں کہ انہوں نے اس رومانوی جوڑے کو دیکھا۔ دل ہی دل میں نظر اتاری۔ لکھے ہوئے جلی حروف ان کا لہو گرما گئے کہ: محبت کا مسکن وفا کا ٹھکانا یہی میری جنت یہی آشیانہ مجھے تو بہت حیرت ہوئی کہ اس سفر نامے کا ایک مقصد تو ادب برائے ادب ہو سکتا ہے کہ آپ کے حسن و جمال کی تشفی ہو جاتی ہے مگر اس کے ساتھ محترمہ نے ملائیشیا کی پوری تاریخ لکھ ماری ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اس آنکھ سے کبھی ملائیشیا میں رہنے والوں نے اپنے ملک کو دیکھا ہوا۔ انہیں وہاں کی خوبصورتیوں میں اور اشجار کو دیکھ کر اپنا لاہور ضرور یاد آیا کہ جس پر انہوں نے درست ماتم کیا کہ ہزاروں اشجار یہاں سے کاٹ دیئے گئے اور آلودگی میں یہ پہلے نمبر پر آتا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ ہم ناروے گئے تو وہاں اوسلو میں منی پنجاب تھا۔ سارے ہی وہاں پنجابی بولتے تھے۔ یہی بات برطانیہ کے بریڈ فورڈ کے بارے میں کہی جاتی ہے۔ محترمہ نے یہ بھی بتایا کہ وہاں سکیورٹی کی صورت حال اتنی اچھی ہے کہ دروازے تک لاک نہیں کرتے پھر انہیں پاکستان کا پرانا دور یاد آیا کہ جب لوگ محلوں میں بھی سو لیا کرتے تھے: ہم بھی سوتے تھے کوئی یاد سرہانے رکھ کر ہاں مگر گردش ایام سے پہلے پہلے اس سفرنامے میں ہماری مصنفہ کی ہندوستانی سکھ فیملیز سے ملاقاتیں بھی دلچسپ ہیں۔ پنجابی رہتل آپ کو نظر آئے گی۔ ساگ اور مکھن کو دیکھ کر ان کے کان میں میڈم نور جہاں کی آواز بھی گونجتی ہے۔ گندلاں دا ساگ ،تے مکھن مکئی۔ وھن کے لیائی آں میں سجناں دے لئی۔ ہماری آنکھ کے سامنے فلم ات خدا دا ویر گھوم گئی۔ تنویر نقوی کا لکھا یہ گیت حبیب اور نغمہ کے اوپر فلمایا گیا تھا۔ تسنیم نے اس کے ساتھ عالمی جنگوں‘ اور ان کی تباہ کاریوں کا تذکرہ بھی کیا جس سے ان کی سنجیدہ طبیعت کا پتہ چلتا ہے اور انسان دوستی سامنے آتی ہے۔ چند سطور دیکھئے: ’’کتنی جانیں ان جنگوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ اقتدار کی ہوس اور انتقام کی آگ کتنی زندگیوں کے چراغ گل ہو جاتے ہیں۔ ہریالی خوش حالی کو بدحالی میں بدل دیتی ہے۔‘‘ سفرنامے میں شاعری کا تڑکا بھی ملتا ہے۔ مثلاً ساحر لدھیانوی کی نظم تک شامل ہے۔ خون اپنا ہو یا پرایا ہو۔ نسل آدم کا خون ہے آخر۔ تسنیم کوثر نے اور تو اور مہاتیر کی وادی تک کا شجرہ بیان کردیا ہے۔ مہاتیر نے ملائیشیا کو ایشین ٹائیگر جو بنایا۔ انہوں نے اس ملک میں ٹورازم کو ایسا فروغ دیا کہ وہاں سیاحوں کا مجمع لگا رہتا ہے وہاں کی ثقافت‘ پرندوں کی دنیا‘ محترمہ فرماتی ہیں کہ انہوں نے تو وہاں سفید کوا بھی دیکھا۔ واقعتاً ہم نے اوسلو میں سفید کوا دیکھا تھا۔ ہو سکتا ہے مغرب والوں کے لیے کالا کوا عجیب ہو۔ یہ سفرنامہ سچ مچ تفصیل میں پڑھنے کے لائق ہے کہ آپ کو وہاں آزادی چوک بھی نظر آئے گا۔ زراعت بھی‘ تعلیمی ادارے بھی۔ کوالالمپور کے علاوہ بھی دوسرے مشہور مسحور کن ہیں۔ 1957ء میں تنکو عبدالرحمن نے ملایا کے باشندوں کو آزادی کی نوید سنائی تھی۔ گویا یہ ملایا جو ملائیشیا کہلایا پاکستان سے دس سال بعد آزاد ہوا مگر وہ ترقی میں بہت آگے۔ ترقی میں تو بنگلہ دیش بھی ہم سے آگے جیسے میں ہم خود پر بوجھ سمجھتے تھے اور وقت نے ہمیں بوجھ ثابت کیا۔ آخری بات یہ کہ ہمارے استاد مکرم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے اس سفرنامے کا فلیپ لکھ کر تسنیم کوثر کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ سفر نامہ اردو ادب میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔ یہ ملائیشیا کے تعلیمی نصاب میں ہونا چاہیے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا