نہ جانے قدرت کو کیا منظور ہے کہ 23کروڑ پر مشتمل ایٹمی ملک ایک ایسی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے، جس میں غیریقینی‘اضطراب‘ باہمی چپقلش اور بدحالی کی کہانی صاف لکھی نظر آ رہی ہے۔ ایک طرف ستر سالہ عمران خان کا اقتدار میں واپسی کا عزم ہے۔ جو گزشتہ پچاس سال سے کسی نہ کسی حوالے سے عام پاکستانی کو سکرین پر نظر آ رہا ہے۔ اسی سفر میں ان کی مقبولیت کا بنیادی نکتہ ان کی تائیدانہ صلاحیت کی وہ شہرت ہے جو انہوں نے کرکٹ کے میدان میں حاصل کی تھی۔ اسی لیے پاکستان میں بہت سے لوگ خصوصاً نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ کرکٹ میں ایک دیو مالائی کردار کا روپ دھارنے والے عمران خان شاید قوم کی تقدیر بھی بدل سکتے ہیں لیکن لاپروا سیاست کا انداز اختیار کرنے والے عمران خان کے ذہن میں یہ مخمصہ ضرور ہے کہ وہ ہر ایک سے ٹکرا سکتے ہیں اور اسے زیر کرسکتے ہیں۔ اپنی بات منوانے کے جنون نے انہیں اس سٹیبلشمنٹ کے مقابل لا کھڑا کیا ہے، جو اس ملک کا سب سے منظم ادارہ ہے، جس کے اشارے پر بہت کچھ متحرک ہو جاتا ہے اور بہت کچھ ساکت۔ جو تاریخ کے 75 سالوں میں نصف سے زیادہ عرصے تک براہ راست حکومت کرتی رہی ہے اور باقی عرصے میں بالواسطہ طور پر اس کا ایک سرگرم کردار رہا ہے لیکن دوسری طرف بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے کے باوجود چاق و چوبند نوجوان کی طرح سینہ تان کر چلنے والے عمران خان یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کی بے پناہ مقبولیت نے انہیں پاکستان کی سیاست کے اصولوں کو نئے سرے سے لکھنے کے قابل بنا دیا ہے لیکن اکھاڑے میں اپنے دائو کو کارگر بنانے کے لیے انہیں عدلیہ کی ڈھال مہیا نہ ہوتی تو وہ خود کو ایک بند گلی میں پھنسا بیٹھتے۔ پاکستان کی سیاست میں جو ہچکولے لگ رہے ہیں، ان کے نتیجے میں یوں دکھائی دے رہا ہے کہ ادارے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ کی جانب سے ہونے والے فیصلے اور اقدامات بتا رہے ہیں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ ساتھ ساتھ فوج بھی عدلیہ کو اس موقف سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اگر انتخابات ایک ہی دن میں ہو جائیں تو بہت سے اضافی اخراجات‘ قانونی پیچیدگیوں اور افواج کی ان اضافی ذمہ داریوں سے عہد براہ ہونے میں بہت سی آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔چند دن قبل فوج کے چند کلیدی جنرلوں نے سپریم کورٹ جا کر چیف جسٹس اور بنچ کے دونوں ارکان کی موجودگی میں تین گھنٹے کی طویل ملاقات میں ساری صورتحال پر بریفنگ دی۔ پھر یہ چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ اس ملاقات کا اب کیا نتیجہ نکلے گا۔ لیکن ایبٹ آباد کے رہائشی کاشف خان کی اس پٹیشن کے جمع کرانے کے بعد کہ الیکشن ایک ہی دن میں ہونے چاہئیں، سپریم کورٹ ایک نئے راستے پر چل پڑی ہے۔ وہ سیاست دانوں کو ملا کر یہ دریافت کر رہی ہے کہ کیا ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے کے رودار سیاست دان کیا ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے آمنے سامنے بیٹھنے اور کسی ایک تاریخ پر متفق ہونے کے لیے تیار ہیں۔لیکن یہاں پر بنیادی نکتہ یہی ہے کہ ملکی متلاطم سیاسی صورتحال اور وطن عزیز کو اس بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے جو کچھ ممکن ہو کیا جائے۔ ایسی صورتحال میں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز اور ادارے ’’جوگاڑ‘‘ کی آس میں اپنا اپنا دائو لگانا چاہ رہے ہیں۔ ورنہ عام آدمی کے نقطہ نظر میں اگر اس معاملے کو فل کورٹ کے سپرد کر دیا جاتا تو محترم جج صاحبان کی اجتماعی دانش اور فراست جو بھی نتیجہ نکالتی اس پر شاید کسی کو تنقید کرنے کا موقع نہ ملتا اور دوسرے یہ کہ اس پر تمام فریقین کے پاس اسے ماننے کے علاوہ کوئی راستہ نہ رہتا۔ دنیا کی عدالتی تاریخ پر نظر ڈالیں یہ ایک نہیں سینکڑوں مثالیں ملیں گی۔ یہ مغرب کا عدالتی نظام ہی ہے، جس نے بے شمار کمزوریوں کے باوجود انہیں زندہ رکھا ہوا ہے جہاں عدالتوں کے فیصلے بولتے ہیں اور یہاں مجھے حضرت علیؓ کا یہ قول زریں یاد آ رہا ہے۔ معاشرے کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں لیکن ناانصافی کے ساتھ نہیں۔ آپ پاکستان کی پوری عدالتی تاریخ پر نظر ڈالیں اس میں کتنے ایسے فیصلے ہیں جس میں انہوں نے نہ صرف آئین کی کسی شق کی خلاف ورزی کی بلکہ پورے آئین کو پامال کر کے ایک ہائبرڈ نظام کھڑا کردیا۔ پھر یہ بھی کہ کتنے ایسے موڑ آئے جب آئین کی عناب شناب تشریح کی گئی۔ خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تسلیم کیا کہ یہ عدالتی نظام اور ان فیصلوں کی کمزوریاں تھیں جس نے ملک کو دولخت کیا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ عدلیہ پر بڑا کڑا وقت بھی آیا لیکن یہ بھی تو عدالتوں کے امتحان تھے کیونکہ اگر عدالتیں کسی بھی دبائو میں آ کر فیصلہ بدل دیں تو وہ عدالتیں نہیں بادبانی کشتیاں ہوتی ہیں جن کی منزلوں کا تعین ملاح نہیں ہوائیں کیا کرتی ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ انصاف اور سچ کے بول بالا کے لیے حق کے راستے پر چلنے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ جب میں یہ سنتا ہوں کہ جاپان میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے جب میں پڑھتا ہوں کہ ڈنمارک کی جیلوں میں اتنے نرم قوانین‘ قیدیوں کے لیے بے مثال سہولتیں اور وارداتوں کے اتنے شاندار مواقع کے باوجود وہاں اتنے کم جرائم کیوں ہوتے ہیں تو مجھے اس کا سیدھا سادا سا جواب ملتا ہے کہ ڈنمارک کے لوگوں نے جب جیلوں کو جدید ترین سہولتوں سے آراستہ کیا توساتھ ہی انہوں نے اپنے عدالتی نظام کو لوہے کی طرح سخت اور چٹان کی طرح اٹل بنا دیا۔ چنانچہ وہاں اب جرم بادشاہ سے سرزد ہو یا بیروزگار شرابی سے مجرم کو گرفتار ہونے‘ تھانے پہنچنے اس کی تحقیقات مکلم ہونے‘ اسے عدالت پہنچنے اس کے کیس کا فیصلہ ہونے اور پھر اس کو جیل میں بند کرنے میں اس سے بھی کم وقت لگتا ہے جتنا تیسری دنیا میں ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچنے میں لگتا ہے۔ میرے خیال میں ہمارے نظام عدل میں عدل کے سوا سب کچھ ہے۔ اگر ہم نے یہ ملک چلانا ہے ہم نے اس سبز پرچم تلے زندگی گزارنی ہے اس پاسپورٹ کے ساتھ رہنا ہے تو ہمیں اس نظام کو بدلنا ہو گا ایک ایسا نظام لانا ہو گا جس کے فیصلے آزاد بھی ہوں او رفوری بھی۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ وہ معاشرے جہاں انصاف نہ ہو زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ آج ہم ایک آزاد وطن ہی سانس لے رہے ہیں یہ صرف کرم ایسی ہے۔