ستر دہائیاں گزرنے کے باوجود تقسیم ہند کے وقت ریاست جموں و کشمیر میں رونما ہونے والے واقعات پر متضاد دعووں کی ایک دبیز تہہ جمی ہوئی ہے۔ اس قضیہ کے ابتدائی دور میں جن دو محققین نے سیر حاصل بحث کی ہے اور جن کی کتابیں ابھی بھی بطور حوالہ استعمال کی جاتی ہیں، وہ سابق امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرٹ کے والد اور اقوم متحدہ میں چیکوسلواکیہ کے سفیر جوزف کاربل اور برطانوی مصنف الیسٹر لیمب ہیں۔ 1954 میں شائع اپنی کتاب Danger in Kashmir میں جوزف کاربل نے دنیا کو خبردار کیا تھا کہ یہ قضیہ امن عالم کیلئے شدید خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کی اس کتاب میں اقوام متحدہ کی کاوشوں اور اسکی کوششوں میں آئی رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح الیسٹر لیمب کی 1966میں شائع The Crises in Kashmir اور بعد میں تین اور کتابیں Kashmir: A Disputed Legacy ، Birth of a Tragedy, Kashmir اورIncomplete Partition میں کشمیر کے قضیہ اور 1947میں رونما ہونے والے واقعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اس برطانوی مصنف کا حال ہی میں 15مارچ کو لندن میں 93سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ گو کہ ان سے کبھی بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل تو نہیں ہوا مگر 2010کے آس پاس جب بھارت کے مشہور محقق اور کالم نویس اور ایک طرح سے بھارت۔پاکستان تعلقات پر حرف آخر اے جی نورانی نے دو جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب The Kashmir Disputeپر کام کرنا شروع کیا تو مجھے بطور ریسرچر متعین کیا، جس کی وجہ سے فون، ای میل وغیر ہ پر الیسٹر لیمب سے وقتاً فوقتاً رابطہ کرنا پڑتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت۔چین سرحدی تنازعہ کے سلسلے میں بھی بھارت میں خاص طور پر معروضی اور غیر جانبدارانہ ریسرچ کا فقدان ہے۔ اس حوالے سے ا ن کا کہنا تھا کہ 1962 میں جب چین بھارت سرحدی تنازعہ زور پکڑ رہا تھا اور دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے تو لندن میں پبلک ریکارڈ آفس اور انڈیا آفس لائبریری میں برطانوی آرکائیوز میں ان کو متعدد ایسی دستاویزات ملیں جو بھارتی وزارت خارجہ کے دعووں کی نفی کرتی تھیں۔ ان کو لگا شاید بھارتی حکومت کی نگا ہ میںیہ دستاویزات نہیں آئی ہونگی۔ انہوں نے لند ن میں بھارتی ہائی کمیشن کے ایک سینئر اہلکار سے ملاقات کرکے ان کو صورت حال سے آگاہی کرائی اور بعد میں بھارتی حکومت کو بھی یہ دستاویزات بھیجیں۔ مگر وہ بعد میں اس نتیجے پر پہنچے کہ بھارتی حکومت کو ان اصل دستاویزات کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے اور و ہ تحریف شدہ دستاویزات پر چین کے خلاف اپنا کیس بنا رہے ہیں۔ اے جی نورانی نے بھی بعد میں اپنی کتاب India, China Boundary Problem میں تذکرہ کیا ہے کہ کس طرح بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ کھڑا کرنے کیلئے تمام پرانی دستاویزات اور نقشوں کو تلف کرکے نئی دستاویزات اور نئے نقشے بنانے کا حکم صادرکردیا تھا۔ اس حوالے سے سترہ صفحات پر مشتمل ایک کلاسیفائڈ میمورنڈم وزارتوں میں تقسیم کیا تھا۔ الیسٹر لیمب ایک برطانوی سفارت کار کے ہاں 1930 کو چین میں انکی پوسٹنگ کے دوران پیدا ہوئے ۔ انہوں نے ایلیٹ پبلک اسکول ہیرو میں تعلیم حاصل کی، جہاں تقریباً 40 سال قبل جواہر لعل نہرو بھی تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ پھر کیمبرج یونیورسٹی میں تاریخ کا مطالعہ کیا۔ ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ برطانوی دور حکومت میں ہندوستان کی سرحدوں اور خاص طور پر چین کے ساتھ حد بندی لائن پر تھا۔ 1960 کی دہائی کے بیشتر عرصے تک لیمب نے ملایا یونیورسٹی اور بعد میں آسٹریلیا اور گھانا میں پڑھایا۔ اس دوران انہوں نے کشمیر کی تاریخ پر اپنی پہلی کتاب مکمل کی۔ 1990 کی دہائی میں، انہوں نے کشمیر کی 20 ویں صدی کی تاریخ اور خاص طور پر الحاق کے بحران کے بارے میں یکے بعد دیگرے تین مزید تفصیلی کتابیں شائع کیں۔ لیمب کو تنازعہ کشمیر کی قانونی اور سفارتی تاریخ کے ماہر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ عام تاثر ہے کہ اگست 1947کو جب برٹش انڈیا دو آزاد مملکتوں میں تقسیم ہوگیا تو جموں کشمیر کے اُس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے میں تاخیر کی۔ بعد ازاں اکتوبر کے مہینے میں جب پونچھ اور دوسرے خطوں میں مہاراجہ کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور پاکستان کے صوبہ کے پی کے سے مسلح قبائلی جنگجو کشمیر میں داخل ہوئے تو مہاراجہ نے بھارت سے فوجی امداد طلب کی۔چنانچہ 27 اکتوبر کو انڈین آرمی کشمیر پہنچی جس کے عوض مہاراجہ نے جموں کشمیر کا مشروط الحاق بھارت کے ساتھ کیا۔ لیکن لیمب اس تھیوری سے متفق نہیں ہیں۔ چند سال قبل جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے ایک معتمد خاص آنجہانی جی پارتھا سارتھی کی یاداشتوں پر مشتمل ایک کتاب نے بھی اس تھیوری کی ہوا نکال دی ہے۔ جی پارتھاسارتھی کے صاحبزادے اشوک پارتھا سارتھی ، جو خود بھی بھارت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں ،نے اس کتاب جس کا ٹائیٹل GP:1915-1995 ہے کو ترتیب دیا ہے۔ ان کے مطابق مطابق قبائلی حملہ سے ایک ماہ قبل یعنی 23ستمبر 1947 کو ہی کشمیر کی بھارت کے ساتھ الحاق کی بساط بچھ چکی تھی۔ مہاراجہ کے تذبذب کو ختم کرنے کیلئے نہرو نے گوپال سوامی آئینگر، جو جی پارتھا سارتھی کے والد تھے کو ایک خفیہ مشن پر سرینگر روانہ کیا تھا۔ پارتھا سارتھی کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے سرینگر میں دو دن قیام کیا او ر اس دوران وہ مہاراجہ کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ بطور ایک ہندو راجہ کے ان کا مستقبل بھارت میں ہی محفوظ ہے۔ کتاب کے مطابق دہلی واپس آکر جب آئینگر نہرو کو رپورٹ دے رہے تھے تو وزیر اعظم نے برجستہ کہا:ـ’’مجھے یقین تھا کہ تم اچھی خبر لیکر ہی آو ٗ گے اور یہ صرف تم ہی کرسکتے تھے۔‘‘ گوپال سوامی آئینگر اس سے قبل کشمیر کے وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ (جاری ہے)