یہ جو ہر شکستہ ہے فاختہ یہ جو زخم زخم گلاب ہے یہ ہے داستان مرے عہد کی جہاں ظلمتوں کا نصاب ہے جہاں حکمرانی ہو لوٹ کی جہاں ترجمانی ہو جھوٹ کی جہاں بات کرنا محال ہو وہاں آگہی بھی عذاب ہے یہ کسی کی طرف اشارہ نہیں ہے بس ایسے ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ہمارے حصے میں بھینسیں آئی ہیں یا سفید ہاتھی یا پھر کچھ بھیڑیے ‘ مگرمچھ اور لومڑیاں جن کے باعث یہ نظام چلتا رہا۔ کیا کروں کہ مجھے استعارے اور اشارے جانوروں ہی سے اٹھانا پڑے بات مگر ابھی جاری تھی کہ کبھی اپنے ہونٹ تو کھول تو کبھی حق میں بھی بول تو یہ عجیب ہے تری خامشی نہ سوال ہے نہ جواب ہے۔ وہی فصل فصل ہیں فاصلے وہی آب ا ٓب ہیں آبلے۔ وہی خار خار ہے رہگزر وہی دشت دشت سراب ہے۔وہی بام و در ہیں جلے ہوئے وہی پھول چہرے ڈھلے ہوئے، وہی کوئے شہر ملال ہے وہی شام و شہر خراب ہے توہم پرست نہیں بس یونہی تفنن کے تحت کہہ رہا ہوں کہ جہاں بھی کوئی کام سرے چڑھنے لگتا ہے کوئی کالی بلی راستہ کاٹ جاتی ہے کمال یہ ہے کہ اس محاورے میں بلی ہے اور دوسرے محاورے میں بلی ہی شیر کی خالہ ہے ۔کسی اور محاوروں میں بلکہ انگریزی اردو کی کچھ نظموں میں بھی بلی ہی کا تذکرہ ہے کہیں بلے کا ذکر نہیں ۔مثلاً یہی کہا جاتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ اس کے مقابلے میں انسانوں میں زیادہ تر مذکر ہی مثال بنتا ہے یہاں تک کہ کوئی عورت جرات کا کام کرے تو کہتے ہیں واہ کیا مردانہ وار کام کیا ہے ہمارے محاورہ ساز اپنے حوالے سے کھردری سوچ رکھتے ہیں جبکہ بلی کے حوالے سے ملائم اور کومل ۔ بلی ہوتی بہت ہی پیاری ہے بلا کمبخت تو بلی کے بچے بھی مار جاتا ہے ۔میں بھی عجیب ہوں کہ بلی کی بات لے کر بیٹھ گیا جبکہ مجھے تو حالات حاضرہ پر ناظرہ بات کرنا ہے۔ ہم تو بہت خوش ہوئے تھے کہ عمران خاں آہستہ آہستہ راہ راست پر آ رہے ہیں کہ انہوں نے مذاکرات کی دعوت دی تھی اور دشمندان شہر اسے بہت ہی میچور موو کہہ رہے تھے۔ بات بھی درست تھی کہ اسی طرح وہ اپوزیشن کا رول ادا کرتے ہوئے حکومت کو جلد انتخاب کے لئے قائل کر لیں بس انتخاب ہونے کی دیر ہے حالات تو ان کے حق میں ہیں۔ مگر آج خان صاحب نے ہماری سب کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔وہ فرماتے ہیں کہ غلط پیغام گیا ۔مذاکرات ہو ہی نہیں سکتے اور شاید حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ شور شرابا پڑا رہے اور الیکشن مزید آگے لے جا سکے کہ وہ انتخاب تک ہی نظر آ رہے ہیں۔ بات سیدھی ہے کہ مہنگائی ان کے کنٹرول میں نہیں آ رہی ۔اب کے تو دوائیاں بھی مہنگی کر دی گئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ یہ سوچتے تھے کہ صرف زندہ رہنا ہی مشکل ہے وہ اپنی سوچ بدلیں کہ اب مرنا بھی آسان نہیں ۔بیماری میں جب دوائیاں خریدنا پڑیں گی تو روز مریں گے۔ ایسے ہی شعر ذہن میں آ گیا: اب تو گھبرا کر یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے یہ شعر بے محل ہرگز نہیں کہ اب قبر کی جگہ بھی آسانی سے نہیں ملتی جگہیں مختص ہونے لگی ہیں ۔قبرستانوں میں اچھی اور سایہ دار قبر کے لئے اشتہار چھپتے ہیں پر غالب یاد آ گئے، ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا۔نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا۔ایک دفعہ پھر معذرت کہ اب میں قبرستان کی طرف نکل گیا ہوں۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے جواباً کہا ہے کہ دھمکیاں اور مذاکرات اکٹھے نہیں چل سکتے اسمبلیاں توڑی گئیں تو وہاں الیکشن ہو جائیں گے۔ اسمبلیاں توڑنا سچ مچ ایک رسک لگ رہا ہے کہ جن کے پاس کھونے کے لئے سب کچھ ہے وہ ایسا نہیں کرنا چاہیں گے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں کسی نے کہا کہ سوچ لو اگر اسمبلی توڑ دی تو پولیس کا کچھ اعتبار نہیں۔ یہاں اختیار اور اقتدار ہی تحفظ ہے مزید یہ کہ سب کی سکیورٹی کی کوئی ضمانت نہیں۔پرویز الٰہی کی بھی بات نہیں مونس الٰہی کے اختیارات ختم ہو جائیں گے خود پی ٹی آئی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ حالات کسی اور طرف بھی جا سکتے ہیں۔ وقت کا بیانیہ بھی بہت کچھ بتا رہا ہوتا ہے مثلاً یہ سرخی کہ بھارت نے جنگ مسلط کی تو بھر پور جواب دیں گے یہ آرمی چیف کا بیان ہے جو بتا رہا ہے کہ فوج اپنے پروفیشن کی طرف متوجہ ہو گئی ہے۔اس سے یہ بھی تو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کے بعد پرویز الٰہی کے پاس کیا رہ جائے گا ۔عمران خاں اکثریت سے آئے تو کیا وہ پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ لیں گے۔ ایک بات زرداری نے بھی بہت بامعنی کی ہے کہ اب پرویز الٰہی ان کی آپشن نہیں چاہیے تو یہ کہ حکمت اور دانشمندی سے وقت نکالا جائے اور الیکشن تک سنجیدگی سے اپنی صفوں کو درست کیا جائے مگر ہو کیا رہا ہے ۔ دوسرا معاملہ اب مولانا فضل الرحمن والا ہے اس میں ہم کچھ بھی نہیں کہہ سکتے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے صرف اتنا کہوں گا کہ پاکستان کی ثقافت اور معاشرے کو ذھن میں رکھیں اور یہ بھی ذھن میں رکھیں کہ آپ ہی نے اسے مدینہ کی ریاست کا درجہ دے رکھا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم اپنے جلسوں اور جلوسوں میں ایسے عناصر پر نظر رکھیں کہ جو منہ سے ایسی اول فائول کہتے ہیں کہ دشمنوں کو بات کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ آپ اپنے لب و لہجہ میں بھی تبدیلی لائیں کہ آپ گالی دیں گے تو مخالف پھول نہیں پھینکیں گے ایک بات میں اور کہوں گا کہ خان صاحب ایک بڑی جماعت کے سربراہ ہیں وہ اپنی تقریر لکھ کر دیکھ لیا کریں۔کسی کو سنانے میں بھی کچھ حرج نہیں ہے چونکہ خان صاحب جیسے محبوب لیڈر کے منہ سے نکلتے ہیں تو وہ جملے زبان زدعام ہو جاتے ہیں مثلاً اب ان کا ایک کلپ وائرل ہے جس میں وہ کہتے ہیں میں نیچے بیٹھا تو دس گولیاں میرے سر پر سے گزریں آرزو لکھنوی کے ایک شعر کے ساتھ اجازت: خزاں کا بھیس بنا کر بہار نے مارا مجھے دو رنگئی لیل و نہار نے مارا