مذاکرات اور سمجھوتہ، بہ ظاہر ملتا جلتا مفہوم رکھنے والے الفاظ ہیں لیکن غور کریں تو ان میں بھی تفریق و تفاوت کے کئی پہلو نکل آتے ہیں۔ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ ان میں نیت کا نہیں نوعیت کا فرق ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تو مذاکرات مذاکرات کی رَٹ لگانے والے ’جمہوریت کے عَلم بردار‘سمجھوتے سے بڑھ کے مہلت بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے یعنی مٹی پاؤ اور ڈنگ ٹپاؤ کے چکر میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ایک ضروری بات ذہن میں رہے کہ مذاکرات ملتے جلتے حضرات یا حالات میں ہوتے ہیں۔ مذاکرات وہاں ہوتے ہیں جہاں پہلے سے بہتری ہو رہی ہو اور مشاورت سے مزید بہتری کے امکانات دکھائی دے رہے ہوں۔ وگرنہ سب جانتے ہیں کہ اچھائی کے برائی سے مذاکرات نہیں ہوتے۔ روشنی کے اندھیرے سے مذاکرات نہیں ہوتے۔ پانی اور خشکی کو ایک میز پہ نہیں بٹھایا جاتا۔ ہوا کو حبس کے چرن چھونے پہ مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ پھول اور کانٹے کو ایک جیسی شکل بنانے کا نہیں کہا جا سکتا۔ ویسے بھی جہاں قانون اور آئین کا راستہ موجود ہو وہاں کسی کو اکاموڈیٹ کرنے کے لیے مذاکرات نہیں ہوتے۔ ایسا صرف کھیل تماشے، لہو ولعب، طوائف الملوکی یا تخیل ہی میں اچھا لگتا ہے، بقول مرزا غالب: کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یا رب سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی! یا بقول لالہ بسمل: مَیں بھی گریجوایٹ ہوں ، تُو بھی گریجوایٹ مَیں بھی پرائیویٹ ہوں ، تُو بھی پرائیویٹ دفتر میں تیرے واسطے خالی پڑی ہے سیٹ تُو بھی اکاموڈیٹ ہو ، مَیں بھی اکاموڈیٹ جہاں قوم کی تقدیر داؤ پہ لگی ہو اور گھاگ لوگوں کو ہر طرح کی من مرضی کرنے کے بعد بھی کسی نئے داؤ پیچ کے لیے وقت گزاری درکار ہو وہاں مذاکرات نہیں ’مذاق رات‘ ہوتے ہیں، قذاق رات ہوتے ہیں۔ حلفیہ کہتا ہوں کہ اتنا افسوس ان چھٹے پھُوکے، آزمائے، دُھتکارے سیاست کاروں کی چالاکیوں، موقع پرستیوں، دروغ گوئیوں، پینترا نمائیوں اور چَینلوں، صحافیوں، مفید قلم کاروں کی قلابازیوں سے نہیں ہوا جتنا ’بالائی سمجھ داروں‘ کی بے حِسی پہ ہوا۔ ہم طویل عرصہ تک اسٹیبلشمنٹ نامی غیبی جن کو اہلِ دانش یا ملک دوست لوگوں کی کوئی ٹیم یا طبقہ سمجھتے رہے، جو ہمیشہ وطنِ عزیز کی بہتری میں فیصلے کرتی ہے۔ پاک فوج کو غیر جانب دار اور سرحدوں کے محافظ جانتے ہوئے ٹرکوں کے پیچھے لکھا دیکھ کے بھی سلام کرنے کو ہاتھ اُٹھتا تھا۔ اب تو نوبت ایں جا رسید کہ جب ادھر سے حلفیہ آواز بھی آتی ہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تو ایک بار پھر غالب یاد آ جاتا ہے: اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں ایسا اِس لیے ہوا ہے کہ مجرموں کے اپنے کیس خود معاف کرنے، پارلیمنٹ کے ساتھ الیکشن اور عدلیہ کے قوانین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے، ٹیکنالوجی سے بھاگنے، بیرونِ ملک رہنے والے محبِ وطن پاکستانیوں کا ووٹ ختم کرنے، مہنگائی کی منھ زوری پہ محض مسکرانے، ڈالر پٹرول کو نیچے لانے کے ہوائی دعووں پہ منھ کی کھانے، وزیروں کی فوجِ ظفر موج پہ شرمندہ نہ ہونے، مسلسل مہنگے اور بے ثمر بیرونی دورے کیے چلے جانے، ہر ایک کے آگے ہاتھ پھیلانے پہ شرمندہ نہ ہونے، پولیس اور رینجر کو عوام میں نفرت کی علامت بنا دینے، مخالفینکا جھوٹے مقدمات اور چھچھوری حرکات کے ذریعے ناطقہ بند کر دینے، جھوٹ کو اس کے پاؤں نکلنے تک بولتے چلے جانے، ہر شعبے میں لا قانونیت کی انتہا کر دینے، الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کے اوقات اور ضوابط سے نکل نکل کے وار کرنے سے جب ملک کا بچہ بچہ واقف ہے، فیکا کوچوان اور بُوٹا مصلّی تک ان کے ثمراتِ بد اور اثراتِ شدید سے آگاہ ہے، تو ہمارے جہاں دیدہ دانش مند کہ جو اِن آزمودہ، فرسودہ، بے ہودہ لوگوں کو بھولی بھالی عوام کہ جن کو دو وقت کی روٹی کمانے اور عزتِ سادات بحال رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں، پہ تجرباتی یا انتقامی طور پر مسلط کرنے والے ہیں اور اب انھیں مسلسل مہلت دیے چلے جا رہے ہیں، ان کے کانوں پر جوں تک کیوں نہیں رینگ رہی؟ حکیم جی کا کہنا ہے، ایسا اس لیے ہے کہ ایک طرف عدل کا عَلم اٹھائے، کینسر ہسپتالوں، یونیورسٹیوں، اٹھائیس سال کی طویل جدوجہد اور عوام کا بھاری مینڈیٹ لیے، دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کرنے والا عالمی سٹیٹس مین کھڑا ہے اور دوسری جانب انھی عوام سے لُوٹی وراثت اور دوسروں کے اشاروں پہ موجیں مارنے والے عادی ہوس پرست ہیں جن کی پہلی بار اصلی جمہوریت کے میدان میں اترنے کیلئے ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن میں جو بُعد ہے، اِسے محض حیلے بہانوں، اخباری بیانیوں یا مذاکرات کے لارے لپوں سے نہیں پاٹا جا سکتا۔ ایسے خلا کو صرف قانون کی بالا دستی سے پُر کیا جا سکتاہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ابدی دُوریاں مٹائی جا سکتی ہیں، تو کوئی ہے جو ایچیسن اور ٹاٹ سکول کی دُوریاں ختم کرنے کے لیے مذاکرات کرائے، جو علم کو جہالت کا بھائی وال بنا دے۔ جو شیرٹن اور پرل کانٹی نینٹل کو ڈھابے اور مائی تندور والی کے پہلو میں لا بٹھائے، جو گاؤں کو شہر کی صحبت عطا کر دے، جو ڈالر کو روپے کی گود میں لا بٹھائے، جو بنگلے کی جھونپڑی سے قلمی دوستی کرا دے۔ کوئی یہ بھی بتا دے کہ کیامرسڈیز کو چِنگ چی کے ساتھ یَسُو پنجُو کھلانے پہ مجبور کیا جا سکتا ہے؟کیا نالائق حکمران زادوں کو الکاسب حبیب اللہ کے فرمان کے تحت وزارتوں سے ہٹا کے بغیر ناشتہ کرائے مزدوری کی تلاش میں چَوک چوراہے میں بیٹھے اللہ کے دوستوں کے ساتھ بٹھایا جا سکتا ہے؟ کیا ٹیکس دینے والوں کو، ٹیکس نہ دینے والوں کے سامنے اعتماد سے بات کرنے کی اجازت ہونی چاہیے؟ کیا تہمد کی پتلون سے منھ ماری کرائی جا سکتی ہے؟ کیا لسی کو چائے میں ملا کے درمیانہ مشروب تیار کرنے کا کوئی نسخہ ایجاد ہو چکا؟ کیا ہاری اور جیتی ٹیم کو ٹرافی کے لیے مکالمہ بازی کی دعوت دی جانی چاہیے؟ مجرم اور منصف کو برابری کی سطح پہ لا بٹھانے کی کوئی نظام اجازت دیتا ہے؟ کیا جیلر اور عملے کو قیدیوں کے رحم و کرم پہ چھوڑا جا سکتا ہے؟ کیا سائنس نے زمین کو آسمان کے ہم رکاب کرنے کا کوئی گُر بتایاہے؟ کیا لفافہ خور صحافی اور ایمان دار جرنلسٹ کو ایک ہی جیسا میڈل دینا جائز ہے؟ تاریخ اور صحائف گواہ ہیں کہ ابلیس نے خدا سے مذاکرات یا سمجھوتہ نہیں کیا تھا، مہلت مانگی تھی۔ اس مہلت میں اس نے گمراہی و گم رَہی کے کیسے کیسے دَر وا کر دیے کہ آج تک بند ہونے میں نہیں آ رہے۔ رزقِ حلال اور صراطِ مستقیم نظروں سے اوجھل ہوئے پڑے ہیں۔ ہر طرف افرا تفری کا عالَم دیکھ کے عدم کو کہنا پڑا کہ: تخلیقِ کائنات کے دلچسپ جرم پر ہنستا تو ہوگا آپ بھی یزداں کبھی کبھی اگر ایسے تضادات پہ بھی مذاکرات کی مٹی ڈالنے کی کوشش کی گئی تو صورتِ حال غالب کے اس شعر کی سی ہوگی: طاعت میں ، تا رہے نہ مَے و انگبیں کی لاگ دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو